سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے سربراہ سینیٹر رحمان ملک نے روپے کی قدر میں مسلسل کمی کا نوٹس لیتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے رپورٹ طلب کرلی ہے جب کہ ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ ملک میں ڈالر کی قیمت میں مزید اضافے کا امکان ہے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران روپے کی قدر میں 30 فی صد تک کمی ہو چکی ہے جس پر کاروباری حلقے پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں جب کہ حزبِ اختلاف روپے کی قدر میں کمی کا الزام وفاقی حکومت کی ناقص پالیسیوں کو قرار دے رہی ہے۔
اس حوالے سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین رحمان ملک نے ایف آئی اے سے روپے کی قدر مسلسل گرنے پر جامع رپورٹ طلب کرلی ہے۔
رحمان ملک کے دفتر کے مطابق ایف آئی اے کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کمیٹی کو 22 دسمبر تک رپورٹ جمع کرائے۔
روپے کی گرتی قیمت کے حوالے سے ماہرِ معیشت ڈاکٹر سلمان شاہ کہتے ہیں کہ حکومت نے اس حوالے سے اقدامات کیے ہیں لیکن پاور سیکٹر کی کاروباری لاگت کو کم کرنا اور سرمایہ کاری کے لیے مثبت ماحول بنانا ہوگا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سلمان شاہ کا کہنا تھا کہ دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کے پاس ڈالر کی سپلائی کیسی ہے؟ اب تک روپیہ بہت زیادہ گرچکا ہے اور اس کی وجہ سے برآمدات میں کمی آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر روپے کی قدر مینیج کرنے کے انتظامات ہوچکے ہیں تو روپیہ مستحکم رہے گا لیکن اگر اس عمل میں دشواری ہوگی تو روپیہ مزید گرسکتا ہے۔
ڈاکٹر سلمان شاہ کے بقول ڈالر کی قیمت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ معیشت کی غیر یقینی صورتِ حال ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ غیر یقینی سے نکلنے کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنا چاہیے۔
سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا سمجھتے ہیں کہ آئندہ کچھ دنوں میں امپورٹرز تیزی سے درآمدات کریں گے کیوں کہ روپے کی قدر مزید گرنے کا امکان ہے۔
ان کے بقول ایک ماہ میں زرِ مبادلہ کے ذخائر میں 1.1 ارب ڈالر کی کمی آئی ہے اور یہ وہی ایک ارب ڈالر ہے جو سعودی عرب سے حاصل ہوا تھا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ حکومت کو جلد فیصلے کرنے ہوں گے ورنہ معاشی حالات خراب ہو سکتے ہیں۔
عمران خان کی حکومت برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے معاشی صورتِ حال پر عدم اعتماد کا اظہار کرتی رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیرِ اعظم کا یہ بیان کہ ان کو ڈالر کی قیمت میں اضافے کا میڈیا سے پتہ چلا، سرمایہ کاروں کا اعتماد اور مجروح کرنے کا سبب بنا ہے۔
پاکستان کے معتبر کاروباری روزنامے 'بزنس ریکارڈر' سے منسلک سینئر صحافی سہیل سرفراز کا کہنا ہے کہ ڈالر 150 سے 155 روہے تک جانے کا امکان ہے کیوں کہ اسٹیٹ بنک نے مارکیٹ کی مداخلت کم کردی ہے اور مارکیٹ فورسز 'آئی ایم ایف' کی طرف دیکھ رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سال 2017ء کے بعد روپے کی قدر میں سب سے زیادہ کمی حالیہ چند روز میں ہوئی ہے جس کے پیشِ نظر صورتِ حال کو مستحکم کرنے کے لیے حکومت کے پاس وقت کم ہے اور اسے جلد بڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔