انڈونیشیاٴ کے جزیرے ’سلاویسی‘ کی غاروں میں چٹانوں پر کندہ نقش و نگار کئی دہائیاں قبل دریافت ہوئے۔ حال ہی میں ماہرین ِآثار ِقدیمہ نے ایک تحقیقی جائزے کے بعد، چٹانوں پر کھدی ہوئی تصاویر کے زمانے کا تعین کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سلاویسی کی چٹانوں پر کھدے ہوئے نقوش 40 ہزار سال پرانے ہیں۔
انڈونیشیاٴ کے جزیرے سلاویسی کی سات غاروں میں چٹانوں پر کھدی ہوئی تصاویر کا جائزہ لیا گیا۔ چٹانوں پر انسانی ہاتھ اور مختلف جانوروں کی شبیہہ کندہ کی گئی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈونیشیاٴ کی چٹانوں پر کھدے ہوئے اس قدیم آرٹ ورک کے زمانے کے تعین کے لیے انتہائی جدید اور درست نتائج دینے والی تکنیک استعمال کی گئی۔ معلوم ہوا کہ انڈونیشیا کی غاروں میں دریافت ہونے والا آرٹ ورک یورپ میں پتھروں پر کھدے ہوئے قدیم ترین فنون کے زمانے کا ہے۔
آسٹریلوی ماہر میکسم اوبرٹ کہتے ہیں کہ، ’انڈونیشیاٴ میں ان غاروں پر دریافت ہونے والی تصاویر سے قبل یہی گمان کیا جاتا رہا ہے کہ مغربی یورپ میں انسان نے پتھروں پر تصاویر بنانے کا آغاز کیا اور اس آرٹ کے ذریعے اپنے جذبوں کا اظہار کیا‘۔
ماہرین کا خیال ہے کہ سلاویسی میں بھی اس وقت یہ آرٹ پروان چڑھا جب یورپی باشندے پتھروں پر کندہ کاری کرکے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
ماہرین ِ آثار ِقدیمہ کا کہنا ہے کہ چٹانوں پر کھدی ہوئی تصاویر دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ زمانہ ِقدیم کے لوگوں کے ذہن متحرک تھے اور وہ اپنے ارد گرد کے حالات کو آرٹ کی شکل دیتے تھے۔
انڈونیشیاٴ کی غاروں میں چٹانوں پر بنی ہوئی تصاویر میں چند ایسی ہیں جس میں کسی جانور کی شبیہہ بنائی گئی، مگر زیادہ تر چٹانوں پر انسانی ہاتھ کی تصویر کھودی گئی ہے۔