ضیاالحق کا مارشل لا زوروں پر تھا۔ اسکولوں ، کالجوں اور یونیوسٹیز میں طلبا سیاست پر پابندی لگ چکی تھی، جمہوریت کی نرسری پر تالے لگا دیے گئے تھے۔ اب معاملات ایک نئی نہج پر جا رہے تھے۔ اس صورتحال میں کراچی میں ہمارے محلے کے کچھ نوجوان ساتھیوں نے محلے کے بچوں کو تعمیری سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کے لیے ایک تنظیم کی بنیاد رکھ دی، جسکا نام انجمن ترقی علوم و فنون رکھا گیا۔ لیکن جس طرح بچوں نے اور خود اس انجمن کے بانی دو بھائیوں نے اس کی ترقی کے لیے کام کیا، اس کے نام میں بعض لوگوں نے مذاقا جنون کا بھی اضافہ کردیا۔ جو کہ اسم با مسمی ثابت ہوا۔
امان اللہ خان اور رضوان اللہ خان ہمارے محلے کے دو بڑے ممتاز نوجوان تھے، ایک تو اپنے کام کی وجہ سے اور دوسرے اپنی بھوری، البائنو رنگت کی وجہ سے۔ امان بھائی اور رضوان ہم سب کو اکھٹا کرتے، ایک ٹھیلا کہیں سے مستعار لیتے اور پھر کراچی کی کڑی دھوپ میں گلی گلی گھوم کر پرانی کتابیں جمع کرتے تاکہ انہیں غریب طلبا و طالبات میں تقسیم کیا جاسکے۔ محلے میں نعتیہ اور تقریری مقابلے کروانا اور ایک سائکلو اسٹائل ۔۔جی ہاں ایک زمانے میں سائکلو اسٹائل پرنٹنگ بھی ہوتی تھی۔۔اردو میگزین ، جوہر، کے ذریعے مضمون نویسی کے مقابلے کرانا، اور بچوں کی آداب نشت و برخاست کی تربیت کرنا ان دونوں بھائیوں کی زندگی کا مقصد تھا۔
یہ دونوں بھائی غیر شادی شدہ تھے، اور اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ رہتے تھے، جو کہ غالبا اتنی بوڑھی تو نہیں تھیں لیکن طویل بیوگی اور سخت زندگی کی وجہ سے چہرہ جھریوں سے بھر گیا تھا اور کمر بھی قدرے جھک گئی تھی۔ ہم لوگ انہیں اماں بی کہتے تھے۔
امان بھائی کے گھر ہر شام میگیزین کو اپنے ہاتھ سے سائیکلو اسٹائل پر منتقل کرنا میری ذمہ داری تھی، اور اس میں میرے معاون میرے عزیز دوست وسیم الدین فاروقی ہوتے تھے، اور اپنی کم عمری کے باوجود میگزین کی ادارت کرتے تھے۔ یہ بھی امان بھائی کے انداز رہنمائی کی ایک ادا تھی کہ ہم بچوں کو ہر جگہ آگے آگے رکھتے تھے۔ چاہے کسی پروگرام کی نظامت ہو یا میگزین کی ادارت، امان بھائی رہنمائی خود کرتے لیکن ہمیں نمایاں ہونے کا موقع دیتے۔ تقریریں لکھنے اور ریہرسل میں ہماری مدد کرتے۔ اماں بی بلا ناغہ ہر شام بچوں کی تواضع چائے سے کرتیں۔ ایسی چائے جسکا ذائقہ مجھے اچھی طرح یاد ہے اور جو مجھے کہیں اور نہیں ملی۔
ہمارے گروپ میں ہر قسم کے ، ہر لسانی گروپ سے تعلق رکھنے والے بچے شامل تھے۔ مذہبی تقسیم بھی نہیں تھی۔ کچھ بچے شیعہ گھرانوں سے تھے ، کچھ کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا اور کچھ اہلسنت جماعت کے بھی تھے، لیکن کبھی لڑتے نہیں تھے اور نہ یہ مذہب اور سیاست پر بات کرتے ہوئے منہ سے کف یا میان سے تلوار نکالتے تھے۔ یہ اتنا پرانا واقعہ تو نہیں لیکن پتہ نہیں وقت کیوں اتنا بدلا بدلا لگتا ہے۔
رضوان اللہ خان تو جوانی ہی میں انتقال کرگئے، لیکن امان بھائی حیات ہیں، لیکن اب بجا طور پر اپنا زیادہ وقت اپنے بال بچوں کو دیتے ہیں۔ شائد حالات سے مایوس ہو چکے ہیں!
ایک ایسے معاشرے میں جہاں رنگ و نسل اور بیماریوں کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے، امان بھائی اور رضوان کا بھورا، البائنو رنگ وجہ امتیاز تو تھا اور غالبا انکے لیے تکلیف کا باعث بھی، کیونکہ یہ جنیاتی فرق بینائی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، لیکن ان دونوں بھائیوں نے اس فرق کو کبھی محسوس نہیں ہونے دیا۔ بس پورے جنون سے اپنی انجمن کے بچوں کی تربیت میں مصروف رہے۔ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی آرزو۔