یہ انٹرویو ’جیو نیوز‘ چینل پر وائس آف امریکہ کے ٹی وی شو ’خبروں سے آگے‘ میں 14 اگست 2006ء کو نشر ہوا
صدر اوباما کا دوبارہ منتخب ہونا , اگلےسال امریکہ کی افغانستان سے واپسی اور ایک بلکل نئی نیشنل سیکیورٹی ٹیم کا انتخاب پاکستان اور اس خطے پر اہم اثرات مرتب کرے گا
مسائل تو ہر جگہ ہی ہیں اور کافی حد تک ایک جیسے ہی ہیں۔ افرنگ کا ہر، ذرہ، فردوس کے مانند تو ہو سکتا ہے لیکن قتل و غارت گری، کرپشن، مذہبی انتہا پسندی، سیاسی تعطل اور دیگر کئی شعبوں میں ترقی یافتہ ممالک اپنے ترقی پذیر اور غریب بھائی بہنوں سے کچھ زیادہ پیچھے نہیں۔
کیا قوم کا اجتماعی شعور ان نتائج کے لیے تیار ہے؟ کیا چند گمراہ لوگوں کے ہاتھوں پاکستانی بچوں اور نوجوانوں کے خواب، خواہشات، مستقبل اور ارمان یرغمال ہوچکے ہیں؟
اسکی طبیعت میں ایک ضد سی آگئی۔ اپنے فیصلوں پر اڑ جانا اسکا معمول تھا اور اپنے نظریات میں معمولی سی لچک اسکے لیے ناقابل غور تھی۔ اسکے دوستوں نے کئی موقعوں پر اسے علاج کے لیے امریکہ آنے کو کہا لیکن اس نے ہمیشہ سختی سے منع کردیا۔
ہمارے گروپ میں ہر قسم کے ، ہر لسانی گروپ سے تعلق رکھنے والے بچے شامل تھے۔ مذہبی تقسیم بھی نہیں تھی۔ کچھ بچے شیعہ گھرانوں سے تھے ، کچھ کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا اور کچھ اہلسنت جماعت کے بھی تھے، لیکن کبھی لڑتے نہیں تھے اور نہ یہ مذہب اور سیاست پر بات کرتے ہوئے منہ سے کف یا میان سے تلوار نکالتے تھے۔
اسکا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ یہ معیشت خود اپنے ہی ہاتھوں خودکشی کرلے گی اور نہ یہ آشیانہ اتنا ناپائیدار ہے۔
خانہ جنگی کے اختتام اور غلامی کے خلاف آئینی ترمیم منظور کروانے کے کچھ ہی دن بعد لنکن ایک انتہاپسند کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔ لیکن, امریکی عوام نے انکے سفر کو جاری رکھا، اقلیتوں کو آئینی اور قانونی حقوق حاصل ہوتے رہے