پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے صدر مقام پشاور میں احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے شخص کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا ہے۔
پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر کے گاؤں شیخ محمدی میں اتوار کی شام محبوب خان نامی شخص کو نامعلوم افراد نے اُس وقت گولیوں کا نشانہ بنایا جب وہ شہر سے باہر جانے کے لیے گاڑی کا انتظار کر رہے تھے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ محبوب خان رشتہ داروں سے ملنے شیخ محمدی گاؤں آئے تھے اور گھر واپسی پر گاڑی کے انتظار کے دوران اُنہیں نشانہ بنایا گیا۔ تاہم حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
اب تک کسی بھی فرد یا گروہ نے محبوب خان کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
بڈھ بیر تھانے کے عہدیدار محمد عمر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فائرنگ کی اطلاع ملنے پر پولیس اہلکار موقع پر پہنچے تو لاش کے قریب مقتول کے بھائی سمیت دیگر رشتہ دار موجود تھے۔
ان کے بقول مقتول کے اہلِ خانہ نے اب تک کسی کو قتل کا ذمہ دار نہیں ٹھیرایا البتہ پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے۔
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن خیبر پختونخوا کے سربراہ شاہد محمود نے محبوب خان کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ریاست سے اس قسم کے واقعات کے روک تھام کا مطالبہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ رواں برس جولائی سے اب تک پشاور اور نواحی علاقوں میں مذہبی منافرت کی بنیاد پر پشاور میں چار احمدیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ ان افراد میں امریکی شہریت رکھنے والے طاہر نسیم کو 29 جولائی کو پشاور کی ایک عدالت کے کمرے میں ہلاک کیا گیا تھا۔
طاہر نسیم کی ہلاکت کے مقدمے میں کم عمر لڑکے سمیت تین افراد زیرِ حراست ہیں جن میں ایک وکیل اور ایک مذہبی شخصیت شامل ہیں۔
طاہر نسیم کے علاوہ ڈاکٹر معراج احمد اور پروفیسر نعیم الدین خٹک بھی مذہبی منافرت کی بنیاد پر مارے جانے والوں میں شامل ہیں۔
جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین نے ربوہ سے جاری کردہ بیان میں محبوب خان کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کی شدید تنقید کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ محبوب خان شیخ محمدی میں اپنی بیٹی سے ملنے گئے تھے جنہیں گھر واپسی پر قتل کر دیا گیا۔ ان کے بقول محبِ وطن احمدیوں کے خلاف جاری منفی پروپیگنڈا کے باعث احمدی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔