افغانستان کی طالبان کے ہاتھوں ختم ہونے والی حکومت کی وفادار فورسز نے ملک کے شمال میں تین اضلاع کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
طالبان کے حامی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے بھی تصدیق ہو رہی ہے کہ شمالی صوبے بغلان میں سیکیورٹی کی ذمہ داریاں واپس سابقہ فوج نے سنبھال لی ہیں۔
سوشل میڈیا پر زیرِ گردش معلومات کے مطابق جھڑپوں میں 15 طالبان جنگجو ہلاک اور 15 زخمی ہوئے ہیں۔
طالبان کے خلاف مسلحہ مزاحمت میں مصروف فورسز کے کمانڈر عبد الحامد نے اندراب سے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے جس میں ان کہنا ہے کہ ان کی فوج ایک اور قریبی ضلع کی طرف گامزن ہے اور وہ پورے بغلان صوبے پر قبضہ کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔
رپورٹس کے مطابق طالبان نے جوابی کارروائی کے لیے اپنے جنگجو اندراب روانہ کر دیے ہیں۔
وائس آف امریکہ نے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے یہ جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا کہ طالبان کے کابل پر قبضہ کرنے کے بعد سب سے پہلے باقاعدہ مسلح ردِ عمل کا سامنا کہاں کرنا پڑا جس کا جواب موصول نہیں ہوا۔
جمعے کو کیے جانے والا حملہ امر اللہ صالح جو کہ خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے والے افغان صدر اشرف غنی کے پہلے نائب صدر تھے، کے اس اعلان کے بعد سامنے آیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے آبائی علاقے پنجشیر میں طالبان کے خلاف زبردست مزاحمت کریں گے۔
صالح نے اشرف غنی کے اتوار کو ملک چھوڑنے کے بعد آئین کے مطابق اپنے آپ کو قائم مقام صدر قرار دیا تھا۔
سابق نائب صدر صالح نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پنجشیر سے باہر مقتول افغان کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کی حمایت کے ساتھ طالبان کے خلاف مزاحمت کریں گے۔ جنہوں نے 1996 سے 2001 کے دوران طالبان حکومت سے اپنے صوبے اور دیگر علاقوں کو محفوظ رکھا تھا۔
دوسری طرف طالبان رہنما دیگر افغان حریفوں کے ساتھ کابل میں مذاکرات کر رہے ہیں تاکہ افغانستان میں ایک جامع حکومت تشکیل دی جا سکے۔ جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔
امریکہ اور دیگر ممالک نے طالبان کو خبردار کیا ہے کہ اگر افغانستان میں حکومت دیگر طریقوں سے قائم کی جاتی ہے تو ملک میں خانہ جنگی جاری رہے گی اور وہ ایسی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے۔
خیال رہے کہ طالبان نے اپنے پچھلے دور حکومت میں سخت اسلامی شریعت نافذ کی تھی۔ جس کے دوران دیگر پابندیوں کے علاوہ خواتین کو صرف اپنے مرد رشتے داروں کے ساتھ گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت تھی اور بچیاں تعلیم حاصل نہیں کر سکتی تھیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے رواں ہفتے کابل میں اپنی پہلی پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ وہ خواتین کی عزت کریں گے، خواتین کو کام کرنے کی اجازت ہو گی اور وہ شریعہ کے مطابق تعلیم حاصل کر سکیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان بین الاقوامی برادری کا حصہ رہنا چاہتے ہیں اور وہ افغانستان میں ایک مخلوط حکومت قائم کریں گے جس میں تمام نسلی گروہوں کی ترجمانی ہو گی۔