امریکی فوج کے ہیلی کاپٹرز نے 96 افغان شہریوں کو کابل کے مختلف علاقوں سے نکال کر کابل ایئر پورٹ پر پہنچایا ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ امریکی فوج کے فضائی آپریشن کو کابل ایئر پورٹ کی فضائی حدود کے باہر تو سیع دی گئی ہے۔
خبر رساں ادارے نے امریکی فوج کے عہدیداروں کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ایک امریکی شینوک ہیلی کاپٹر سی ایچ 47 نے کابل ایئر پورٹ کے باہر ایک مقام پر پھنسے ہوئے افغان شہریوں کو ، جن میں بچے اور عورتیں شامل تھے، جمعہ کے روز حامد کرزئی ایئر پورٹ تک پہنچایا ہے۔ ان افغان شہریوں کو امریکی فوج کی تیسری بریگیڈ کامبیٹ ٹیم کے 82ویں ایئر بورن ڈویژن نے کابل ایئر پورٹ کے نزدیک کیمپ سلیون سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اٹھا کر ایئر پورٹ پہنچایا۔
امریکی فوج کے عہدیداروں کے مطابق ایسی ہیلی کاپٹر سورٹیز کابل میں طالبان کے داخل ہونے کے بعد سے جاری ہیں۔
ادھر پینٹا گان کی پریس بریفنگ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان سے رابطہ کر کے انہیں بتا دیا گیا ہے کہ جن افراد کے پاس امریکہ سفر کرنے کی ضروری دستاویزات ہوں انھیں کابل ایئر پورٹ تک آنے دیا جائے۔
امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان ترجمان جان کربی نے بتایا کہ 169 امریکی شہری افغانستان کے اندرونی علاقوں سے کابل ہوائی اڈے پر پہنچے، جنھیں انخلا کے عمل میں شامل کر کے ملک سے باہر لایا جا چکا ہے۔
جمعے کے روز اخباری بریفنگ کے دوران سوالوں کا جواب دیتے ہوئے، جان کربی نے کہا کہ امریکہ یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ اپنے شہریوں کی ہر صورت مدد کرے اور اس معاملے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتی جائے گی۔
بقول ان کے، ''اس بات میں شک کی گنجائش نہیں کہ اگر ضرورت پڑی تو ہم کابل ایئرپورٹ سے باہر جا کر اپنے شہریوں کی مدد کریں گے۔''
محکمہ دفاع کے ترجمان نے واضح کیا کہ اب تک اس ضمن میں طالبان ہماری ہدایات پر عمل کر رہے ہیں، اور ہمیں اس کے برعکس کوئی شکایت نہیں ملی۔ کچھ غیر مصدقہ شکایات ایسی بھی سنی گئی ہیں کہ کچھ افراد کو روکا گیا ہے۔
امریکی فوج کے میجر جنرل ولیم ٹیلر نے جو پینٹا گان کی پریس بریفنگ کے دوران موجود تھے، کہا کہ ضرورت پڑنے پر طالبان سے رابطہ کیا جاتا ہے، جو مشن کو مکمل کرنے کے لیے درکار ہوتا ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں، میجر جنرل ٹیلر نے کہا کہ امریکہ میں تین فوجی اڈوں کی نشاندہی کی جا چکی ہے جہاں کابل سے لائے گئے افراد کو اترنے کی اجازت ہو گی، جب کہ راستے میں قطر اور دیگر مقامات پر پروازوں کے رکنے کی سہولت موجود ہے۔ اس ضمن میں جرمنی کے فوجی اڈے کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
جمعے کو کابل ایئرپورٹ سے انخلا کی خصوصی پروازیں دوبارہ شروع ہوئیں، جو آٹھ گھنٹے تک تعطل کا شکار رہی تھیں، کیونکہ قطر میں جس مقام پر لوگوں کو انخلاء کے بعد منتقل کیا جانا تھا وہاں گنجائش کے مسائل پیدا ہو گئے تھے۔
جان کربی نے کہا کہ اندازاً 30000 افغان باشندوں اور ان کے اہل خانہ کو ابھی کابل سے لانے کا کام باقی ہے؛ جب کہ گزشتہ پانچ دنوں کے دوران جن 6000 افراد کا انخلا کیا گیا ہے ان میں سے 5000 افغان باشندے ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں پینٹاگان کے ترجمان نے کہا کہ 20 سال قبل القاعدہ انتہائی خطرناک تھی جسے تباہ کیا جا چکا ہے۔ ساتھ ہی، انھوں نے کہا کہ امریکہ کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ افغانستان میں داعش کا وجود ہے، لیکن داعش اور طالبان دشمنی کی حد تک آپس میں تنازعے کا شکار ہیں۔
اس سے قبل،پینٹاگان نے بتایا کہ کابل سے انخلاء کی ایک پرواز جمعے کے روز جرمنی جا رہی ہے۔ آرمی کے میجر جنرل ولیم ٹیلر نے بریفنگ میں بتایا کہ امریکہ اپنے نیٹو اتحادی، جرمنی کا، انخلا کی عالمی کوششوں میں معاونت فراہم کرنے پر شکرگزار ہے۔
پینٹاگان کے ترجمان جان کربی نے بتایا کہ امریکی فورسز نے ایئرپورٹ کے احاطے کے باہر سے کچھ امریکی شہریوں کو فضائی ذریعے سے اندر پہنچانے میں مدد فراہم کی۔
عہدے داروں کا کہنا تھا کہ انخلاکرنے والوں کی سیکیورٹی کی خاطر جمعے کے روز امریکی جیٹ طیاروں نے کابل کے اوپر سے پرواز کی۔
پینٹاگان کا کہنا ہے کہ ایئرپورٹ کے باہر بے قابو مجمعے کو کنٹرول کرنے کے لیے فورسز نے ہوا میں گولیاں چلائیں۔ کسی کے ہلاک یا زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
پینٹاگان کے ترجمان نے سی این این کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ آئندہ ہفتوں میں امریکہ افغانستان سے اپنے 22 ہزارافغان اتحادیوں کے انخلا کے لیے تیار ہے۔