رسائی کے لنکس

چیونٹیاں بھی انسانوں کی طرح اپنے ساتھیوں کی سرجری کرتی ہیں، سائنسدان


چیونٹیوں کی یہ قسم جسے فلوریڈا کارپینٹر آنٹ کہا جاتا ہے امریکہ میں عام پائی جاتی ہے۔
چیونٹیوں کی یہ قسم جسے فلوریڈا کارپینٹر آنٹ کہا جاتا ہے امریکہ میں عام پائی جاتی ہے۔

  • چیونٹیوں کی بعض اقسام اپنی ساتھی چیونٹیوں کی جان بچانے کے لیے سرجری کا طریقہ استعمال کرتی ہیں، سائنسدان
  • سرجری کے طریقہ کار سے زخمی چیونٹیوں کے بچنے کا اوسط 95 فیصد تک پہنچ جاتا ہے، سائنسدان
  • اس سے قبل سائنسدانوں نے مشاہدہ کیا تھا کہ بعض چیونٹیاں زخمی ساتھیوں کو بچانے کے لیے زخموں پر اپنے غدود سے اینٹی بائیوٹک کا استعمال کرتی ہیں۔
  • ایرک کا کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ سائنسدانوں نے انسانوں کے علاوہ کسی اور جاندار کو زخموں کو ٹھیک کرنے کے لیے میڈیکل طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

سائنسی جریدے ’کرنٹ بائیولوجی‘ میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بعض طرح کی چیونٹیاں اپنے زخمی ساتھیوں کے جسم میں انفیکشن کے پھیلنے سے روکنے کے لیے ان کے زخمی عضو، جیسے ٹانگ کو کاٹ کر ان کی جان بچاتی ہیں۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انسانوں کی طرح سرجری جیسا عمل پہلی دفعہ کسی اور جاندار میں پایا گیا ہے۔

چیونٹیوں کی یہ قسم جسے "فلوریڈا کارپینٹر آنٹ" کہا جاتا ہے امریکہ میں عام پائی جاتی ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ان چیونٹیوں کا مشاہدہ کیا گیا جس میں دیکھا گیا کہ یہ اپنے ساتھی زخمی چیونٹیوں کے زخموں کو یا تو صاف کر کے انہیں ٹھیک کرنے کی کوشش کرتی ہیں، یا ضائع ہونے والی ٹانگ کو مسلسل کاٹ کر جسم سے علیحدہ کر دیتی ہیں۔

رائٹرز کے مطابق تحقیق کے مصنف اور جرمنی کی یونیورسٹی آف ورزبرگ میں ’’سوشل وونڈ کئیر‘‘ پر تحقیق کرنے والے ایرک فرانک کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ ان چیونٹیوں کا طبی نظام جانداروں میں انسانوں کے بعد سب سے ترقی یافتہ ہے۔

انہوں نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر تحقیق کے نتائج شئیر کرتے ہوئے لکھا ہےکہ، ان چیونٹیوں نے عضو کاٹنے کی سرجری کے کئی طریقے ارتقا کے ذریعے سیکھے ہیں۔ جیسے بقول ان کے ان چیونٹیوں نے زخمی ہونے کی صورت میں جب اپنے ساتھی کی ٹانگ ان کی ران کی ہڈی سے اوپر سے کاٹی تو ایسی صورت میں ایسی چیونٹیوں کے بچنے کا اوسط امکان 95 فیصد تک پہنچ گیا۔

چیونٹیوں کی سرجری نہ کرنے کی صورت میں یہ اوسط محض 45 فیصد تھا۔ ایرک کا کہنا تھا کہ جب انسان بھی سرجری کے ذریعےکسی عضو کو کاٹتے ہیں تو ایسی صورت میں نتائج تقریباً ایسے ہی ہوتے ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ دوسری صورت میں پنڈلی کی ہڈی سے نیچے کے زخموں کی صورت میں عضو نہیں کاٹا جاتا، بلکہ زخم کو دوسرے طریقوں سے بہتر کرنے کے طریقے آزمائے جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں بھی ایرک کے مطابق ایسی چیونٹی کے بچنے کا اوسط 45 فیصد سے 75 فیصد تک پہنچ جاتا ہے۔

ایرک کا کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ سائنسدانوں نے انسانوں کے علاوہ جانداروں میں زخموں کو ٹھیک کرنے کے لیے میڈیکل طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

ماضی میں ایرک کے گروپ نے دیمک کا شکار کرنے والی چیونٹیوں پر تحقیق کی تھی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ایسی چیونٹیاں زخمی ساتھیوں کے زخموں کو بیکٹیریا سے بچانے کے لیے جسم کے ایک غدود سے رطوبت جاری کرتی ہیں جو اینٹی بائیوٹک کا کردار ادا کرتا ہے اور اس سے چیونٹیوں میں ہلاکتوں کی تعداد میں بڑی کمی واقع ہوتی ہے۔

اس خبر کے لیے کچھ مواد خبر رساں ادارے رائیٹرز سے لیا گیا۔

فورم

XS
SM
MD
LG