رسائی کے لنکس

سانپوں کا جزیرہ جہاں انسانوں کا داخلہ منع ہے


برازیل کے سانپوں کے جزیرے ایلاڈا فیماڈا گرینڈے کا ایک منظر۔ فائل فوٹو
برازیل کے سانپوں کے جزیرے ایلاڈا فیماڈا گرینڈے کا ایک منظر۔ فائل فوٹو
  • برازیل کے جزیرے ایلاڈا قیماڈا گرینڈے کو سانپوں کا جزیرہ کہا جاتا ہے جہاں دنیا کے خطرناک ترین سانپ گولڈن لینس ہیڈ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
  • اس جزیرے کا رقبہ محض 106 مربع ایکٹر ہے۔
  • سنہری رنگ کے گولڈن لینس ہیڈ سانپوں کا زہر دیگر سانپوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ مہلک ہے۔
  • گولڈن لینس ہیڈ کی خوراک وہ پرندے ہیں جو جزیرے پر رات بسر کرنے آتے ہیں۔
  • جزیرے پر جانے کے لیے حکومت کی اجازت درکار ہوتی ہے جو بمشکل ہی ملتی ہے۔
  • سنہری سانپ کی بلیک مارکیٹ میں قیمت 30 ہزار ڈالر سے زیادہ ہے اور اس سانپ کی نسل کو بقا کا خطرہ لاحق ہے۔

ویب ڈیسک _ دنیا میں ایک جزیرہ ایسا بھی ہے جہاں سانپوں کا راج ہے اور وہاں انسان کا داخلہ منع ہے۔ اس جزیرے کے سانپوں کا شمار دنیا کے زہریلے ترین سانپوں میں کیا جاتا ہے۔

سانپوں کے جزیرے کا نام ایلاڈا قیماڈا گرینڈے ہے جو برازیل کے ساحل پر تقریباً 33 کلو میٹر کے فاصلے پر بحر اوقیانوس میں واقع ہے۔

جزیرے کا رقبہ محض 106 مربع ایکٹر ہے۔ یہاں گھنا جنگل اور پتھریلی چٹانیں ہیں۔

سانپوں کا جزیرہ برازیل کی ملکیت ہے لیکن وہاں کوئی انسان آباد نہیں۔ جزیرے میں ایک لائٹ ہاؤس قائم ہے تاکہ اس علاقے سے گزرنے والے بحری جہازوں کو رہنمائی ملتی رہے۔

لائٹ ہاؤس کا انتظام برازیل کی بحریہ کے پاس ہے۔ 1920 میں اس لائٹ ہاؤس کو مکمل طور پر خودکار بنا دیا گیا تھا۔ بحریہ کے اہل کار سال میں ایک بار دیکھ بھال کے لیے اس کا معائنہ کرتے ہیں اور جزیرے میں جانے کے لیے خصوصی حفاظتی انتظامات کیے جاتے ہیں۔

جزیرے سے منسوب کہانیوں کے مطابق خودکار بنائے جانے سے قبل لائٹ ہاؤس میں ایک محافظ اپنی فیملی کے ساتھ رہتا تھا۔ ایک رات سانپوں نے لائٹ ہاؤس پر حملہ کیا تو محافظ اور اس کا خاندان اپنی جان بچانے کے لیے ساحل کی جانب بھاگے لیکن سانپوں کے ڈسنے سے سب ہلاک ہو گئے۔

سہری سانپ برندوں کے شکار کے لیے درختوں کی شاخوں سے لپٹے رہتے ہیں۔
سہری سانپ برندوں کے شکار کے لیے درختوں کی شاخوں سے لپٹے رہتے ہیں۔

اس جزیرے میں ’گولڈن لینس ہیڈ‘ نسل کے سانپ پائے جاتے ہیں۔ ان کا رنگ زردی مائل ہوتا ہے اور انہیں سنہری سانپ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی لمبائی تقریباً چار فٹ تک ہوتی ہے۔

ماہرین کے اندازوں کے مطابق ابتدا میں سنہری سانپوں کی تعداد لگ بھگ چار لاکھ 30 ہزار تھی، یعنی تقریباً ہر مربع فٹ میں ایک سانپ موجود تھا۔ پھر رفتہ رفتہ ان کی تعداد گھٹنے لگی اور سن 2015 میں کرائے گئے سروے کے مطابق سانپوں کی تعداد کا تخمینہ چار ہزار کے لگ بھگ لگایا گیا تھا۔

ماہرین کے مطابق سنہری سانپوں کا زہر خطرناک زہریلے سانپوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ مہلک ہے۔

سانپ عمومی طور پر چوہے، مینڈک، چھپکلیاں اور اسی طرح کے دوسرے چھوٹے جاندار کھاتے ہیں، مگر سنہری سانپوں کی خوراک پرندے ہیں اور وہ انہیں شکار کرنے کے لیے ہر وقت درختوں پر لٹکے رہتے ہیں۔

پرندوں کا شکار کرنے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ پہلے برفانی دور تک یہ جزیرہ برازیل کے ساحل سے جڑا ہوا تھا اور یہاں دوسرے جانداروں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ چنانچہ سنہری سانپوں کو بھی دوسرے سانپوں کی روایتی خوراک آسانی سے مل جاتی تھی۔

برفانی دور کے اختتام پر جب گلیشیئر پگھلے اور ایلاڈا قیماڈا گرینڈے، برازیل سے کٹ گیا تو کچھ ہی عرصے میں سنہری سانپ جزیرے پر موجود اپنی روایتی خوراک کے تمام جانور ہڑپ کر گئے اور جب نوبت فاقوں پر پہنچی تو ان کی نظرِ انتخاب پرندوں پر پڑی۔

درخت کے پتوں میں چھپا ہوا سنہری سانپ پرندے پر حملہ کرنے کی تاک میں ۔
درخت کے پتوں میں چھپا ہوا سنہری سانپ پرندے پر حملہ کرنے کی تاک میں ۔

آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اس جزیرے میں پرندے خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ وہاں سانپوں کے سوا کوئی اور جاندار موجود نہیں۔

سانپ اپنی خوراک کے لیے ان پرندوں کا انتظار کرتے ہیں جو آس پاس کے ساحلی علاقوں سے پرواز کرتے ہیں اور رات گزارنے کے لیے اس جزیرے کے درختوں پر اترتے ہیں، جہاں درختوں سے لٹکے ہوئے سنہری سانپ انہیں ڈستے ہیں اور پھر نگل لیتے ہیں۔

چوں کہ سانپ کے دانت نہیں ہوتے اور وہ اپنی خوراک صرف نگل سکتا ہے، اس لیے سنہری سانپ جزیرے میں آنے والے چالیس اقسام کے پرندوں میں سے صرف دو قسم کے چھوٹے پرندوں کا ہی شکار کرتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق سنہری سانپوں کو زہریلا ترین بننے کے لیے کئی ارتقائی منزلوں سے گزرنا پڑا ہے۔ کیوں کہ جب وہ پرندوں کو ڈستے تھے تو زہر آہستہ آہستہ اثر کرتا تھا اور پرندے اڑ جاتے تھے اور کہیں راستے میں مر کر سمندر میں گر جاتے تھے۔ اس طرح سنہری سانپ بھوکا رہ جاتا تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ اس نے اپنے زہر کو اتنا مہلک بنا لیا کہ اس کے ڈستے ہی پرندہ ڈھیر ہو جاتا ہے اور وہ اسے اپنی خوراک بنا لیتا ہے۔

جزیرے پر گھنا جنگل ہے جسے گرم ہوتی ہوئی آب و ہوا سے خطرے کا سامنا ہے۔
جزیرے پر گھنا جنگل ہے جسے گرم ہوتی ہوئی آب و ہوا سے خطرے کا سامنا ہے۔

سنہری سانپ کے تیز زہر نے اس جزیرے کو انسانوں کے لیے ممنوع علاقہ بنا دیا ہے۔ وہاں جانے کے لیے انتظامیہ سے اجازت لینا پڑتی ہے جو سائنس دانوں یا ماہرین کے سوا بہت کم ہی کسی کو ملتی ہے۔

اجازت نہ دینے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اپنے تیز ترین زہر کی وجہ سے سنہری سانپ جانوروں کے اسمگلروں کے لیے بہت پرکشش بن چکا ہے۔

ایک سنہری سانپ عموماً 30 ہزار ڈالر سے زیادہ میں فروخت ہو جاتا ہے۔ اسے سائنسی لیبارٹریاں اور بیماریوں پر تحقیق کرنے والے ادارے خرید لیتے ہیں۔ سانپ کا زہر کینسر سمیت کئی خطرناک بیماریوں کے علاج میں استعمال ہوتا ہے۔

کئی دیگر جانداروں کی طرح سنہری سانپ کو بھی اپنی بقا کے خطرے کا سامنا ہے۔ جس کی وجوہات میں اسمگلروں کے علاوہ گلوبل وارمنگ بھی شامل ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث جزیرے کے جنگل سوکھتے جا رہے ہیں جس سے ان پرندوں کی آمد بھی گھٹتی جا رہی ہے جو سنہری سانپ کی خوراک بنتے ہیں۔

سنہری سانپوں کی بقا کو لاحق ایک اور بڑا خطرہ ان کی نسل کی جینیاتی خرابیوں سے ہے۔ برازیل کے ساحل سے کٹنے کے بعد سے، تقریباً گیارہ ہزار برسوں سے، یہ سانپ تنہائی کی زندگی گزار رہا ہے اور اس کا اپنی نسل سے اختلاط نہیں ہے جس سے اس کے جین میں کمزوریاں اور خامیاں پیدا ہو رہی ہیں۔

سائنس دان سنہری سانپوں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسے جنگلی حیات کے ان جانداروں میں شامل کر لیا گیا ہے جن کی نسل خطرے میں ہے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG