انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، یعنی آئی ایف پی آر آئی نے کہا ہے کہ اس کی رپورٹ سے عرب دنیا کی جو تصویر سامنے آئی ہے وہ حقیقت کے زیادہ قریب ہے۔ آئی ایف پی آر آئی کے ریسرچ فیلو اور اس رپورٹ کے مصنف کلیمنز برے سنگر کہتے ہیں’’عرب دنیا میں غذا کی باقاعدہ فراہمی کے انتظامات اور غربت کے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اعداد و شمار تک رسائی اور ان کی فراہمی بہت محدود ہے۔‘‘
آئی ایف پی آر آئی کا کہنا ہے کہ اسکی رپورٹ Beyond the Arab Awakening میں ریسرچ کے جدید طریقے اور اطلاعات کے بہت سے مختلف ذرائع استعمال کیے گئے ہیں۔ برے سنگر کہتے ہیں’’اس رپورٹ کا پہلا پیغام یہ ہے کہ غذا کی یقینی فراہمی اور غربت کی صورتِ حال شاید اس سے کہیں زیادہ خراب ہے جتنا سرکاری اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے ۔ اور اس سے پالیسی کے شعبے میں جس چیز کی نشاندہی ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ عرب دنیا میں عوامی بیداری کی تحریکوں اور شفافیت کے مطالبات کےبعد، اعداد و شمار کی فراہمی اور دستیابی کے مسئلے سے نمٹنا ضروری ہے تاکہ فیصلے کرنے کا عمل بہتر ہو سکے۔‘‘
برے سنگر کہتے ہیں کہ عرب دنیا میں بہت سے عوامل ایسے ہیں جن کی وجہ سے یہ دوسرے علاقوں سے مختلف ہے۔ ’’اول، یہ دنیا کا ایسا علاقہ ہے جو غذا کی درآمد پر سب سے زیادہ انحصار کرتا ہے ۔ یہ اپنی غذاِئی ضرورت کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ در آمد کرتا ہے اور یہ شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے ۔ اس کے ساتھ ہی، اس علاقے میں زرعی پیداوار کی صلاحیت محدود ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ پانی کی قلت ہے ۔ آب و ہوا کی تبدیلی نے اس مسئلے کو زیادہ سنگین کر دیا ہے۔‘‘
اس پر مستزاد آبادی میں اضافے کی اونچی شرح ہے جو زیریں صحارا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے ۔ لہٰذا صارفین کی مانگ کی وجہ سے غذائی اشیاء کی رسد پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ برے سنگر کہتے ہیں’’چونکہ رسد محدود ہے اور مانگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اس لیے رسد اور مانگ میں فرق بڑھتا جا ئے گا جس سے دنیا میں غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اچانک کمی بیشی سے اس علاقے کو درپیش خطرات بڑھ جائیں گے ۔ ہم نے 2008 میں، اور کسی حد تک 2010 میں اس کا مشاہدہ کیا ہے۔‘‘
آئی ایف پی آر آئی کی رپورٹ میں بچوںمیں غذائیت کم ہونے کی اونچی شرح کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
برے سنگر کہتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں بچوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے، اور اس کے ساتھ ہی وہ معاشرے کا سب سے بڑا اثاثہ ہوتے ہیں۔’’اگر بچوں کو بالکل چھوٹی عمر سے 5 برس کی عمر تک پوری غذائیت نہ ملے، تو اس کے بڑے دور رس نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔ ان کی ذہنی صلاحیت یا IQ ، ان کی پیداواری صلاحیت، اور اس طرح ملک کی مجموعی ترقی کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔‘‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ 8 برسوں میں مصر میں بچوں میں غذائیت کی کمی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ، سوڈان، صومالیہ، Comoros اور یمن میں بچوں میں غذائیت کی شدید کمی کی اطلاعات ملی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، گھرانے کی جو آمدنی غذائی اشیاء کی خریداری پر خرچ کی جاتی ہے، وہ ناکافی ہوتی ہے ۔ مثلاً یمن میں، آمدنی کا پچیس فیصد حصہ Khat کی پتیوں پر خرچ کر دیا جاتا ہے ۔ جب یہ پتیاں چبائی جاتی ہیں تو ان سے خوشی اور انبساط کا احساس پیدا ہوتا ہے، اور انسان چوکنا اور چاق و چوبند محسوس کرنے لگتا ہے۔
انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے سفارش کی ہے کہ عرب ملکوں کو اپنی آبادی میں غربت اور غذائی اشیاء کی فراہمی کی ضمانت کے بارے میں بہتر اعداد و شمار جمع کرنے چاہئیں ۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے ان ملکوں کو تیل کے کے سوا دوسری چیزوں کی بر آمد کے ذریعے روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر زور دینا چاہیئے ۔آخر میں، رپورٹ کی سفارش ہے کہ حکومت زراعت، تعلیم، صحت، بنیادی ڈھانچے اور سماجی طور پر لوگوں کے تحفظ پر رقوم خرچ کرے۔
آئی ایف پی آر آئی کی رپورٹ بیروت میں فوڈ سکیور عرب ورلڈ کانفرنس کے موقع پر جاری کی گئی۔ فروری کے شروع میں ہونے والی اس کانفرنس کا اہتمام آئی ایف پی آر آئی، اقوامِ متحدہ اور سوشل کمیشن فار ویسٹرن ایشیا نے کیا تھا۔