کئی عشروں سے واشنگٹن کے لیے مشرق وسطیٰ ایسا علاقہ رہا ہے جہاں امریکہ کے اہم مفادات ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس علاقے میں تیل اور قدرتی گیس کے دنیا کے سب سے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ امریکہ نے اس علاقے میں اپنا اسٹریٹجک اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے ، اکثر ایسی دوست حکومتوں پر انحصار کیا ہے جنھوں نے اپنے عوام کی جمہوری امنگوں کو دبائے رکھا ہے۔ لیکن اب جب کہ سارے علاقے میں عوامی تحریکوں نے سر اٹھایا ہے، امریکی پالیسی ساز علاقے میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے دوسرے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔
واشنگٹن میں وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے یو ایس۔اسلامک ورلڈ فورم کی ایک حالیہ میٹنگ میں اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا’’جہاں کہیں ہمارے لیے ممکن ہوگا، ہم عام لوگوں کے ساتھ، سول سوسائٹی، کاروباری لیڈروں، مذہبی حلقوں، عورتوں اور اقلیتوں کے ساتھ زیادہ مضبوط رشتے قائم کرنے کے لیے زیادہ سرگرمی سے کام کریں گے۔ ہم اپنے کام کے طریقوں پر نئے سرے سے غور کر رہے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ شہری خود ترجیحات کا تعین کرنے میں مدد دیں۔‘‘
تاہم، انھوں نے کہا کہ عرب دنیا میں جمہوریت کی تحریکوں کے بارے میں امریکہ کا رد عمل ہر ملک کے لیے مختلف ہوگا اور وہاں کے زمینی حالات اور امریکہ کے اسٹریٹجک مفادات کو سامنے رکھ کر متعین کیا جائے گا۔
محکمہ خارجہ کے سابق اسسٹنٹ سیکرٹری مارٹن انڈیک اس میٹنگ میں موجود تھے اور انھوں نے اس نقطۂ نظر سے اتفاق کیا۔ انھوں نے کہا’’جب مصر کے لوگوں نے فرعون، یعنی سابق صدر حسنی مبارک، کے خلاف بغاوت کی تو میرے خیال میں ہم نے صحیح فیصلہ کیا ۔ ہم نے ان اقدار کے لیے جو امریکہ کو عزیز ہیں، لوگوں کی امنگوں کی حمایت کی اور تاریخ کی آواز پر لبیک کہا۔‘‘
لیکن انڈیک کے مطابق، ہو سکتا ہے کہ یہ طریقہ سعودی عرب جیسے ملک کے لیے مناسب نہ ہو۔’’سعودی عرب کا معاملہ کہیں زیادہ پیچیدہ ہے کیوں کہ اگر وہاں عدم استحکام ہوا، تو تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی اور اس سے ساری دنیا میں اور خود امریکہ میں اقتصادی بحالی پر شدید اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘
انڈیک کہتے ہیں کہ واشنگٹن کو اب سعودی عرب اور خلیج کے دوسرے ملکوں کے ساتھ نئی مفاہمت پیدا کرنی چاہیئے تا کہ یہ ملک سیاسی اور آئینی اصلاحات کرتے رہیں اور مصر اور تیونس جیسے عوامی انقلاب سے بچے رہیں۔
قومی سلامتی کے سابق مشیر Zbigniew Brzezinski کہتے ہیں کہ واشنگٹن کے لیے اس علاقے میں اپنا اثر و رسوخ اور اپنی ساکھ بہتر بنانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن قائم کرنے کی نئی کوشش کی جائے۔ لیکن وہ انتباہ کرتے ہیں کہ اگر اس قسم کی کوشش کے کوئی نتائج بر آمد نہ ہوئے، تو اس کا الٹا اثر ہو گا۔’’
اگر امریکہ زبانی ایسی تجاویز دینا جاری رکھتا ہے جو بڑی امید افزا معلوم ہوتی ہیں اور پھر ان زبانی تجاویز پر عمل درآمد کے لیے کوئی اسٹریٹجک اقدامات نہیں کرتا، تو ہمارے لیے علاقے میں بڑی مشکل پیدا ہو جائے گی۔ ہمیں یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیئے۔‘‘
لیکن برزنسکی اور علاقے کے دوسرے ماہرین کی نظر میں، مشرق وسطیٰ میں امریکہ کو اپنی ڈپلومیسی میں جمہوری تحریکوں کو مضبوط بنانے پر زور دینا چاہیئے ۔ یونیورسٹی آف میری لینڈ کے شبلی تلہامی کہتے ہیں کہ اس مہینے یونیورسٹی کے رائے عامہ کے جائزے سے پتہ چلا ہے کہ امریکیوں کی بھاری اکثریت، یعنی 57 فیصد اس بات کے حق میں ہے کہ امریکہ کو عرب دنیا میں زیادہ جمہوریت کی حمایت کرنی چاہیئے۔
’’امریکیوں کی بھاری اکثریت کا خیال ہے کہ عرب دنیا میں جو مظاہرے ہو رہے ہیں ان کا تعلق اسلام پسندوں سے نہیں ہے۔ یہ عام لوگوں کے مظاہرے ہیں جو آزادی اور جمہوریت کے متلاشی ہیں۔ اس خیال کی وجہ سے امریکیوں میں عرب جمہوریت کے بارے میں امید افزا اور حمایت کےجذبات پیدا ہوتےہیں۔ پھر اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کیا امریکہ کو ابھرتی ہوئی جمہوریتوں کی حمایت کرنی چاہیئے، اگرچہ ان کی حکومتوں کا رویہ امریکہ کے بارے میں کم دوستانہ ہے، تو اکثریت کا جواب ہاں میں ہوتا ہے۔‘‘
جیسا کہ تلہامی اور مشرق وسطیٰ کے امور کے دوسرے ماہرین کہتے ہیں، کہ اگر امریکہ خود کو علاقے کی ظالمانہ حکومتوں کے بجائے عوام کے ساتھ وابستہ کر سکے، تو اس سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف مزاحمت کو تقویت ملے گی۔