سپریم کورٹ آف پاکستان نے دسمبر 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے اور اس میں 140 زائد طلبہ اور اساتذہ کی ہلاکت کے واقعے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کی تشکیل کا حکم دے دیا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جمعے کو یہ حکم سانحۂ آرمی پبلک اسکول سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران دیا۔
عدالتِ عظمیٰ نے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کو حکم دیا ہے کہ وہ عدالت کے سینئر جج پر مشتمل کمیشن تشکیل دیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے ہیں کہ پشاور میں صورتِ حال ایسی تھی کہ کمیشن کی تشکیل کا کام مکمل نہ ہوسکا لیکن اب کمیشن معاملے کی تحقیقات کر کے چھ ہفتے میں رپورٹ پیش کرے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ لواحقین سے شرمندہ ہوں، انہیں دوبارہ عدالت آنا پڑا۔ والدین کے لختِ جگر واپس نہیں لا سکتا لیکن تکلیف کم کرنے کی کوشش کروں گا اور درست تحقیقات کے لیے جو کرسکے کریں گے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سانحے میں ہلاک ہونے والے بچوں کی ماؤں سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنی بہنوں سے معافی چاہتا ہوں۔ زبانی حکم پہلے دیا تھا لیکن فائل پر آرڈر نہیں کرسکا۔ دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے 16 اکتوبر کو اے پی ایس پشاور کے دورے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے کلاس روم میں بیٹھ کر قرآن خوانی کریں گے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے رواں سال اپریل میں سپریم کورٹ کی پشاور رجسٹری کے دورے کے دوران آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے متاثرین کے احتجاج اور تحقیقاتی عمل سے متعلق تحفظات پر معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔
از خود نوٹس کی سماعت کے دوران چند ماہ قبل بھی چیف جسٹس نے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم دیتے ہوئے دو ماہ میں انکوائری رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی تھی اور کہا تھا کہ کمیشن میں پشاور ہائی کورٹ کے کم از کم ایک جج کو شامل ہونا چاہیے۔
لیکن چیف جسٹس کی اس ہدایت پر عمل نہیں ہوسکا تھا۔
جمعے کو سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سانحہ کی تحقیقات کے علاوہ ورثا کی داد رسی بھی کی جائے۔
سولہ دسمبر 2014ء کو دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول حملہ کیا تھا جس میں لگ بھگ 140 افراد مارے گئے تھے۔
واقعے میں 130 سے زائد طلبہ بھی ہلاک ہوئے تھے جن کی عمریں 8 سے 18 برس کے درمیان تھیں۔
مقتول طلبہ کے والدین سانحے کے بعد مختلف فورمز پر احتجاج کرتے آئے ہیں اور ان کی اکثریت کا کہنا ہے کہ انہیں دہشت گرد حملے سے قبل اسکول کے حفاظتی انتظامات، حملے کے بعد سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی اور حملے کی کی جانے والی تحقیقات پر تحفظات ہیں۔