اسلامی ممالک کی تنظیم، او آئی سی کے لئے صدر اوباما کے نمائندہٴ خصوصی، ارسلان سلیمان نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اسلامی دنیا سے نہیں، بلکہ ایک مخصوص گروپ سے لڑی جا رہی ہے۔
بقول اُن کے، ’جو لوگ ملک میں نسلی امتیاز کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں، امریکی عوام نے انھیں مسترد کر دیا ہے‘۔
وائس آف امریکہ کے پروگرام ’کیفے ڈی سی‘ میں میزبان، فیض رحمان کے سوالوں کے جواب میں امریکی عہدیدار سلیمان کا کہنا تھا کہ کیلی فورنیا واقعہ کے بعد صدر اوباما نے داعش کے خاتمے اور امریکی عوام کے تحفظ کے لئے ایک مربوط منصوبہ دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ کیلی فورنیا کا واقعہ داعش سے متاثرہ جوڑے کی کارروائی تھی۔ بقول اُن کے، ’اب تک اس کارروائی میں براہ راست داعش کے ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے۔ تاہم، اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردوں نے قانونی طریقے سے باآسانی اسلحہ کیسے حاصل کرلیا‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اِسی لئے، صدر نے کانگریس سے کہا ہے کہ وہ ہتھیاروں کی دستیابی کی روک تھام کے لئے اقدامات کرے۔
مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے کو روکنے سے متعلق ریپبلبکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیان پر انھوں نے کہا کہ اسے پوری امریکی قوم نے مسترد کر دیا ہے، جگہ جگہ انٹرفیتھ اجلاس ہو رہے ہیں، سماجی اداروں اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والوں، سیاستدانوں اور ہر مکتبہٴ فکر نے اسے نا قابل قبول قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ نسلی اور مذہبی بنیادوں پر کسی کے ساتھ امتیاز امریکی آئین کے منافی ہے۔ اسی لئے، سب نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کی مذمت کی ہے جب کہ صدر اوباما نے بھی اس بیان پر اپنا ردعمل دیا اور واضح کردیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اسلام کے خلاف جنگ نہیں۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبے پر عمل کیا جائے تو یہ داعش جیسی تنظمیوں کے مقاصد پورے کرے گا، جو دنیا کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
ایک سوال پرسلیمان کا کہنا تھا کہ اسلے کے زور پر تشدد یا دہشت گردی کا تعین کرنے کے لئے باضابطہ ایک طریقہ کار ہے، جس کے مطابق، ایف بی آئی اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کو مناسب وقت دیا گیا، تاکہ وہ مقدمے کی سمت کا تعین کرلیں۔
سلیمان کے بقول، ’امریکہ اب بھی نسلی امتیاز جیسے مسائل سے نمٹ رہا ہے اور آزاد میڈیا، اس سلسلے میں کافی مددگار ثابت ہوگا جو تمام قومی مسائل پر کھل کر بحث کرتا ہے، جس سے مسائل کے حل کی راہ نکلتی ہے‘۔