کینیا میں قتل ہونے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف کی والدہ نے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کے نام درخواست میں مطالبہ کیا ہے کہ پاکستانی فوج کے سات افسران کے خلاف اُن کے بیٹے کے قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔
بدھ کو ارشد شریف قتل کیس میں ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران مقتول کی والدہ رفعت آرا علوی بھی عدالت آئیں اور مطالبہ کیا کہ اُن کے بیٹے کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
ارشد شریف کی والدہ نے کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ اُنہوں نے بیٹا گنوایا ہے،لیکن وہ نہیں چاہتیں کہ آئندہ کسی کے بیٹے کے ساتھ ایسا ہو، لہذٰا ارشد کے قاتلوں کو سزا دی جائے۔
ارشد شریف کی والدہ نے تین صفحات پر مشتمل ایک درخواست بھی چیف جسٹس کے حوالے کی جسے اُنہوں نے اٹارنی جنرل کے سپرد کر دیا۔
ارشد شریف کی والدہ کی درخواست میں کیا ہے؟
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ارشد شریف نے رواں برس حکومت کی تبدیلی کے معاملے پر طاقت ور حلقوں کے بارے میں سوال اٹھانا شروع کیے تو انہیں دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں۔
ارشد شریف کی والدہ رفعت آرا علوی نے اپنی درخواست میں کہا کہ 31 مئی 2022 کو ارشد نے 'وہ کون تھا ' کے عنوان سے پروگرام شروع کیے جس کے بعد انہیں دھمکیاں ملنے لگیں۔ سب سے پہلے فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے ایک افسر بریگیڈئیر محمد شفیق ملک کی طرف سے دھمکیاں دی گئیں۔
خیال رہے کہ ارشد شریف کا شمار پاکستان فوج کے قریب سمجھے جانے والے صحافیوں میں ہوتا تھا۔ تاہم رواں برس تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے کو اُنہوں نے 'رجیم چینج آپریشن' قرار دیا تھا۔ اس معاملے پر اُنہوں نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید شروع کی تھی۔
اپنی درخواست میں ارشد شریف کی والدہ نے مزید بتایا کہ خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈئیر فہیم رضا نے ارشد کو آئی ایس آئی سیکٹر ہیڈ کوارٹر میں بلوایا اور میجر جنرل فیصل نصیر کا پیغام دیا۔ اس کے باوجود بھی ارشد اپنے پروگرام کے ذریعے اپنی رائے دینے سے نہ رکے تو بریگیڈیئر فہیم رضا نے کرنل رضوان اور کرنل نعمان کے ذریعے دھمکیاں بھجوانا شروع کردیں۔
ارشد شریف کی والدہ نے درخواست میں مزید لکھا کہ آخری میٹنگ میں آئی ایس آئی کے کرنل نعمان ، ارشد سے ملنے گھر پر آئے اور کہا کہ وہ جوکچھ کہہ رہے ہیں وہ پاکستانی فوج کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے کہہ رہے ہیں اور جو ارشد کہے گا وہ اعلیٰ قیادت کو پہنچا دیا جائے گا۔ کرنل نعمان نے ارشد کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور کہا کہ اگر وہ اپنے بیانیے اور رائے پر قائم رہے تو انہیں فکس کردیا جائے گا۔
اُن کے بقول ارشد اس سب کے بعد بھی اپنی رائے پر قائم رہے اور تحقیقاتی پروگرام کرتے رہے جس پر ان کے خلاف مختلف شہروں میں مقدمات کا اندراج شروع ہو گیا۔ ان مقدمات میں ارشد کے خلاف غداری کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔
'ارشد نے صدر اور چیف جسٹس کو بھی خط لکھے تھے'
رفعت آرا علوی کے مطابق ارشد نے صدرِ پاکستان اور چیف جسٹس کو خطوط بھی لکھے کہ ان کی زندگی کو خطرہ ہے۔ نو اگست 2022 کو ارشد کے خلاف ایک اور مقدمہ درج ہوا جس کے بعد ارشد کو اپنے ذرائع سے اطلاعات ملنے لگیں کہ انہیں پاکستان میں قتل کردیا جائے گا۔
ارشد نے اپنے اہل خانہ کو بتایا کہ ممکنہ حملہ آور اس کا پیچھا کررہا ہے اور گھر کے قریب بھی آیا ہے جس کے بعد ارشد نے اپنی حفاظت کے پیشِ نظر ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
دس اگست کو پشاور ایئرپورٹ کے ذریعے ارشد دبئی روانہ ہو گئے۔ روانگی سے پہلے ارشد نے ایک ماہ بہت مشکلات میں گزارا اور ان میں سے چند دن وہ گھر سے باہر بھی نہیں نکل سکتے تھے۔
اس صورتِ حال میں ارشد کے چینل اے آروائی کو آف ایئر کردیا گیا اور اسے 31 اگست کو اس وقت بحال کیا گیا جب چینل انتظامیہ کی طرف سے ارشد کو ملازمت سے فارغ کرنے کا اعلان کیا گیا۔
ارشد نے یہ تمام تفصیلات گھر والوں کو بتائی تھیں اور کہا تھا کہ اگر اس کے ساتھ کچھ ہوا تو اس میں جنرل قمر جاوید باجوہ، لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم، میجرجنرل فیصل نصیر، بریگیڈئیر محمد شفیق ملک، بریگیڈئیر فہیم رضا ، کرنل رضوان اور کرنل نعمان ذمے دار ہوں گے۔
رفعت آرا علوی کے مطابق دبئی پہنچنے کے بعد ارشد نے کچھ دن ہوٹل میں قیام کیا اور ایک دن دبئی حکام میں سے ایک شخص اس سے ملا اور اسے 48 گھنٹوں میں دبئی چھوڑنے کا کہا۔ اس کی وجہ پاکستانی حکام کا وہ دباؤ تھا جو ارشد کو پاکستان واپس بھجوانا چاہتے تھے۔ اس شخص نے بتایا کہ انہیں معلوم ہے کہ وہ صحافی ہے اور انہیں صورتِ حال کا اندازہ ہے لہذا اسے ڈی پورٹ کرنے کے بجائے موقع دے رہے ہیں کہ وہ عرب امارات چھوڑ کر چلے جائیں۔
ارشد کے پاس کسی اور ملک کا ویزہ نہ تھا۔ جلدی میں ارشد کینیا وقار احمد کے پاس پہنچا جس کا انتظام اے آر وائی کے سی ای او سلمان اقبال نے طارق وصی کے ذریعے کیا تھا۔کینیا میں ارشد نے تقریباً دو ماہ قیام کیا اور وہاں سےبھی اپنی رائے کا اظہار کرتا رہا۔ ارشد اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے پاکستانی سیاست میں فوج کے کردار پر بات کرتا رہا اور 23 اکتوبر کو انہیں ٹارگٹ کر کے قتل کر دیا گیا۔
ارشد شریف کی والدہ کے مطابق اُنہیں 23 اور 24 اکتوبر کی درمیانی شب دو بجے اطلاع ملی کہ ارشد کینین پولیس کے شوٹ آؤٹ میں قتل ہوگیا ہے۔ ارشد اس وقت وقار احمد کے بھائی خرم احمد کے ساتھ سفر کررہا تھا۔ کینین پولیس نے شروع میں اسے غلط شناخت کا معاملہ بتایا لیکن بعد میں سامنے آنے والے شواہد اور فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ میں بھی ثابت ہوا کہ ارشد کو باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے قتل کیا گیا۔
ارشد شریف کی والدہ نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ اس کے خلاف درج 16 ایف آئی آرز میں سے صرف 2 کے مدعی سامنے آئے ہیں۔
رفعت آرا علوی نے اپنی درخواست میں مطالبہ کیا کہ وہ ارشد شریف کے قتل کے مقدمے میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم، آئی ایس آئی کے افسر میجر جنرل فیصل نصیر، بریگیڈیئر محمد شفیق ملک، بریگیڈیئر فہیم رضا، کرنل نعمان، کرنل رضوان، وقار احمد اور خرم امد وغیرہ کو نامزد کرنا چاہتی ہیں۔
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ اور ارشد شریف کی والدہ کی طرف سے الزامات کے بعد اب تک پاکستانی فوج کی طرف سے کوئی موؐقف سامنے نہیں آیا۔
البتہ ارشد شریف کے قتل کے بعد ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم اور ڈی جی آئی ایس پی آر بابر افتخار نے 27 اکتوبر کو ہونے والی پریس کانفرنس میں ارشد شریف کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کو بلاجواز قرار دیا تھا۔
پاکستان فوج نے مطالبہ کیا تھا کہ صحافی کے قتل کی تحقیقات میں اے آر وائی نیوز کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) سلمان اقبال کو شامل تفتیش کیا جائے اور انہیں وطن واپس لایا جائے۔
لیفٹننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا تھا کہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ارشد شریف کی ہلاکت سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس کیس میں بہت سے سوالات ایسے ہیں جن کے جوابات آنا باقی ہیں۔ فوج کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ یہ دیکھنا ہو گا کہ ارشد شریف کے قتل کے کیا محرکات ہیں۔ جب تک صحافی کے قتل کی حتمی رپورٹ نہیں آ جاتی کسی پر الزام تراشی مناسب نہیں۔