ہنگری میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں منگل کو غیر معمولی کمی ہوئی جبکہ اطلاعات کے مطابق کچھ پناہ گزین سربیا سے کروشیا میں داخل ہو گئے ہیں۔
ہنگری کی حکومت نے بدھ کو کہا کہ صرف 366 افراد کو ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے پر پکڑا گیا۔ ایک دن قبل ہنگری نے ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے افراد کے لیے سخت قوانین کا نفاذ کیا تھا۔ پولیس کے مطابق پیر کو 9,380 افراد ہنگری میں داخل ہوئے تھے۔
جو لوگ ہنگری میں داخل نہیں ہو پا رہے، امکان ہے کہ وہ جنوبی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ چند درجن پناہ گزینوں کو منگل کو سربیا سے کروشیا داخل ہوتے دیکھا گیا جبکہ کئی بسیں سربیا کے شہر پریسیوو سے کروشیا کی طرف جاتے ہوئے دیکھی گئیں۔
کروشیا کے وزیر داخلہ رانکو اوستوجک نے بدھ کو پارلیمان میں بتایا کہ اب تک 277 افراد ملک میں داخل ہو چکے ہیں۔
کروشیا کے وزیر داخلہ نے منگل کو ٹیلی وژن پر ایک پروگرام میں کہا تھا کہ کروشیا میں پناہ گزینوں کی آمد کے لیے تیاری کر لی گئی ہے اور ضرورت پڑنے پر ہنگامی منصوبہ تشکیل دیا جائے گا۔
ادھر سیکڑوں پناہ گزین ترکی کی سرحد پر جمع ہو رہے ہیں کیونکہ پولیس انہیں یورپی ملکوں میں داخل ہونے سے روک رہی ہے۔ ترک حکام نے یونان کی سرحد پر رکاوٹیں کھڑی کر دیں ہیں اور استنبول سے سرحدی شہری ایڈرین جانے والی بسیں معطل کر دی ہیں۔
منگل کو سربیا نے کہا کہ وہ اتنی تعداد میں پناہ گزینوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا جو ہنگری کی طرف سے سخت قوانین کے نفاذ کے بعد اس کی سرحد پر جمع ہو رہے ہیں۔
سربیا کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ سربیا پناہ گزین جمع کرنے کا مرکز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات قابل قبول نہیں کہ پناہ گزین واپس سربیا داخل ہوں، خصوصاً جب مزید پناہ گزین یونان اور میسیڈونیا سے سربیا پہنچ رہے ہیں۔
ہنگری کے حکام نے منگل کو دو سرحدی چوکیاں بند کر دیں کیونکہ سربیا کی طرف غیرقانونی طور پر داخل ہونے والوں کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات موجود نہیں۔ ہنگری نے دو کاؤنٹیز میں ہنگامی حالت کا اعلان بھی کیا ہے۔
ادھر برلن میں جرمن چانسلر آنگیلا مرخیل نے اس مسئلے پر ایک خصوصی سربراہ اجلاس بلانے کا اعلان کیا ہے اور یورپی یکجہتی پر زور دیا ہے۔
مرخیل نے کہا ہے کہ جرمنی اس سال آٹھ لاکھ کے لگ بھگ پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں جگہ دے گا۔ مگر کچھ یورپی ملکوں نے شام اور دیگر علاقوں سے جنگ سے بھاگنے والے پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہنے پر جرمنی پر تنقید کی ہے۔
جرمنی نے ان یورپی ملکوں پر مایوسی کا اظہار کیا ہے جو پناہ گزینوں کا بوجھ بانٹنے میں ہچکچاہٹ سے کام لے رہے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ان یورپی ملکوں میں مہاجرین کی آمد مثبت چیز ہے جہاں بیشتر آبادی عمر رسیدہ ہے کیونکہ ملازمتیں پانے کے بعد پناہ گزین اپنے ٹیکسوں سے ملک کا صحت اور پینشن کا نظام چلانے میں مدد دیں گے۔
ان کے مطابق بہت سے پناہ گزین ایسی تعلیم اور مہارتیں رکھتے ہیں جن کی یورپی منڈیوں میں ضرورت ہے۔
اس سال چار لاکھ 30 ہزار سے زیادہ تارکین وطن یورپ پہنچ چکے ہیں جن میں عراق اور شام سے آنے والے پناہ گزین بھی شامل ہیں جبکہ اس کوشش میں تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔