شام کے صدر بشار الاسد نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے تاہم ان کے بقول گزشتہ ماہ دمشق کے قریب ہونے والے زہریلی گیس کے حملے میں ان کی فورسز ملوث نہیں۔
امریکی ٹی وی ’فوکس نیوز‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ وہ کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کے امریکہ، روس معاہدے کی پابندی کریں گے لیکن مسٹر اسد نے صورتحال کو ’’پیچیدہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس عمل میں ایک سال ’’یا شاید اس سے کچھ زیادہ‘‘ عرصہ اور ایک ارب ڈالر خرچ آئے گا۔
ہتھیاروں کو تلف کرنے کے منصوبے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان میں بحث جاری ہے اور انھوں نے شام کو اپنے کیمیائی ہتھیاروں کی تفصیلات فراہم کرنے کے لیے ہفتہ تک کا وقت دے رکھا ہے۔
مسٹر اسد نے کہا کہ وہ ’’کل‘‘ ہی یہ کرنے کو تیار ہیں اور ماہرین کو ہتھیاروں کی ذخیرہ گاہ تک رسائی دے سکتے ہیں۔
شام کے صدر نے اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ 21 اگست کو باغیوں کے زیر قبضہ علاقے غوتہ میں شہریوں پر حملے میں اعصاب شکن گیس استعمال کی گئی۔
گو کہ اس رپورٹ میں ذمہ داروں کا تعین تو نہیں کیا گیا لیکن امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کا یہ ماننا ہے کہ اس سے واضح اشارے ملتے ہیں کہ اس حملے کے ذمہ دار باغی نہیں بلکہ حکومتی فورسز تھیں۔
صدر اسد نے رپورٹ کے نتائج کو ’’غیر حقیقی‘‘ قرار دیا۔ انھوں نے حملے کے بعد کی تصاویر اور وڈیوز میں دکھائے گئے مناظر پر شک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’انٹرنیٹ پر ایسی جعلسازی عام ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ممکن یہ کہ باغیوں کو سارین گیس تک رسائی ہو۔ حکومت تواتر سے یہ دعویٰ کرتی آئی ہے۔
مسٹر اسد کا اصرار تھا کہ ان کی حکومت خانہ جنگی کا مقابلہ نہیں کر رکھی بلکہ یہ ’’نئی طرز کی جنگ‘‘ ہے جو کہ 80 سے زائد ممالک سے ان کے ہاں درانداز اسلامی جنگجو کے خلاف ہے۔
انھوں نے اعتراف کیا کہ ان کے خلاف دو سال سے جاری تحریک میں ابتداً میں غیر انتہاپسند عناصر بھی شامل تھے، لیکن ان کے بقول 2012ء کے اواخر تک ان (جنگجوؤں) کو اکثریت حاصل ہوچکی تھی۔ ’’ 80 سے 90 فیصد کا تعلق القاعدہ اور دیگر دھڑوں سے ہے۔‘‘
فوکس نیوز کے نمائندے سابق امریکی قانون ساز ڈینس کوسنچ نے یہ انٹرویو دمشق میں لیا اور یہ بدھ کی شب نشر کیا گیا۔ یہ رواں ماہ کسی بھی امریکی ٹی وی نیٹ ورک کو دیا گیا مسٹر اسد کا دوسرا انٹرویو تھا۔
انٹرویو میں مسٹر اسد نے امریکہ کے صدر براک اوباما سے درخواست کی کہ وہ ان کی حکومت کے خلاف فوجی کارروائی سے گریز کریں۔ انھوں نے ان الفاظ میں امریکی رہنما پر زور دیا کہ’’ اپنے عوام کی عام فہم بات کو سنیں‘‘۔ یہ تاثرات امریکہ میں رائے عامہ کے ان جائزوں کے تناظر میں تھے جس میں شام پر کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال کی پاداش میں فوجی کارروائی کی سخت مخالفت کی گئی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے تفتیش کاروں کی طرف سے جمع کردہ شواہد پر منبی پیر کو جاری کی گئی رپورٹ کے بعد کہا تھا کہ یہ ’’غیر متنازع اور واضح‘‘ طور پر ثابت کرتی ہے کہ غوتہ میں ہونے والے حملے میں وسیع پیمانے پر سارین گیس استعمال کی گئی۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ اس حملے میں کم ازکم 1400 افراد ہلاک ہوئے۔
دریں اثناء سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کی حکمت عملی وضع کرنے کے لیے ایک قرارداد کے مسودے پر بات چیت کرنے میں مصروف ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس اس قرار داد میں شام کو پابند کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کی تنبیہ کے خواہاں ہیں۔ شام کا اہم اتحادی ملک روس اس کوشش کی مخالفت کرتا ہے۔ تاحال یہ واضح نہیں کہ اس پر رائے شماری کب ہوگی۔
امریکی ٹی وی ’فوکس نیوز‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ وہ کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کے امریکہ، روس معاہدے کی پابندی کریں گے لیکن مسٹر اسد نے صورتحال کو ’’پیچیدہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس عمل میں ایک سال ’’یا شاید اس سے کچھ زیادہ‘‘ عرصہ اور ایک ارب ڈالر خرچ آئے گا۔
ہتھیاروں کو تلف کرنے کے منصوبے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان میں بحث جاری ہے اور انھوں نے شام کو اپنے کیمیائی ہتھیاروں کی تفصیلات فراہم کرنے کے لیے ہفتہ تک کا وقت دے رکھا ہے۔
مسٹر اسد نے کہا کہ وہ ’’کل‘‘ ہی یہ کرنے کو تیار ہیں اور ماہرین کو ہتھیاروں کی ذخیرہ گاہ تک رسائی دے سکتے ہیں۔
شام کے صدر نے اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ 21 اگست کو باغیوں کے زیر قبضہ علاقے غوتہ میں شہریوں پر حملے میں اعصاب شکن گیس استعمال کی گئی۔
گو کہ اس رپورٹ میں ذمہ داروں کا تعین تو نہیں کیا گیا لیکن امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کا یہ ماننا ہے کہ اس سے واضح اشارے ملتے ہیں کہ اس حملے کے ذمہ دار باغی نہیں بلکہ حکومتی فورسز تھیں۔
صدر اسد نے رپورٹ کے نتائج کو ’’غیر حقیقی‘‘ قرار دیا۔ انھوں نے حملے کے بعد کی تصاویر اور وڈیوز میں دکھائے گئے مناظر پر شک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’انٹرنیٹ پر ایسی جعلسازی عام ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ممکن یہ کہ باغیوں کو سارین گیس تک رسائی ہو۔ حکومت تواتر سے یہ دعویٰ کرتی آئی ہے۔
مسٹر اسد کا اصرار تھا کہ ان کی حکومت خانہ جنگی کا مقابلہ نہیں کر رکھی بلکہ یہ ’’نئی طرز کی جنگ‘‘ ہے جو کہ 80 سے زائد ممالک سے ان کے ہاں درانداز اسلامی جنگجو کے خلاف ہے۔
انھوں نے اعتراف کیا کہ ان کے خلاف دو سال سے جاری تحریک میں ابتداً میں غیر انتہاپسند عناصر بھی شامل تھے، لیکن ان کے بقول 2012ء کے اواخر تک ان (جنگجوؤں) کو اکثریت حاصل ہوچکی تھی۔ ’’ 80 سے 90 فیصد کا تعلق القاعدہ اور دیگر دھڑوں سے ہے۔‘‘
فوکس نیوز کے نمائندے سابق امریکی قانون ساز ڈینس کوسنچ نے یہ انٹرویو دمشق میں لیا اور یہ بدھ کی شب نشر کیا گیا۔ یہ رواں ماہ کسی بھی امریکی ٹی وی نیٹ ورک کو دیا گیا مسٹر اسد کا دوسرا انٹرویو تھا۔
انٹرویو میں مسٹر اسد نے امریکہ کے صدر براک اوباما سے درخواست کی کہ وہ ان کی حکومت کے خلاف فوجی کارروائی سے گریز کریں۔ انھوں نے ان الفاظ میں امریکی رہنما پر زور دیا کہ’’ اپنے عوام کی عام فہم بات کو سنیں‘‘۔ یہ تاثرات امریکہ میں رائے عامہ کے ان جائزوں کے تناظر میں تھے جس میں شام پر کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال کی پاداش میں فوجی کارروائی کی سخت مخالفت کی گئی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے تفتیش کاروں کی طرف سے جمع کردہ شواہد پر منبی پیر کو جاری کی گئی رپورٹ کے بعد کہا تھا کہ یہ ’’غیر متنازع اور واضح‘‘ طور پر ثابت کرتی ہے کہ غوتہ میں ہونے والے حملے میں وسیع پیمانے پر سارین گیس استعمال کی گئی۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ اس حملے میں کم ازکم 1400 افراد ہلاک ہوئے۔
دریں اثناء سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کی حکمت عملی وضع کرنے کے لیے ایک قرارداد کے مسودے پر بات چیت کرنے میں مصروف ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس اس قرار داد میں شام کو پابند کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کی تنبیہ کے خواہاں ہیں۔ شام کا اہم اتحادی ملک روس اس کوشش کی مخالفت کرتا ہے۔ تاحال یہ واضح نہیں کہ اس پر رائے شماری کب ہوگی۔