بھارت کی سیاسی جماعت آل انڈیا مجلس اتحا دالمسلمین کے صدر اور حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی کے قافلے پر حملے کے بعد حکومت نے ان کی سیکیورٹی میں اضافہ کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے این آئی‘ کے مطابق حکومت نے یہ فیصلہ ان کی سیکیورٹی کا جائزہ لینے کے بعد کیا۔ اب سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے کمانڈوز 24 گھنٹے ان کی سیکیورٹی پر تعینات رہیں گے۔
اسد الدین اویسی پر حملے کا معاملہ پارلیمنٹ میں بھی اٹھایا گیا ہے۔ آل انڈیا مجلس اتحا دالمسلمین کے لوک سبھا رکن سید امتیاز جلیل نے صدر کے خطبے پر ہونے والی بحث میں حصہ لیتے ہوئے اس معاملے کو اٹھایا اور کہا کہ نظریاتی اختلافات اپنی جگہ پر لیکن اس واقعے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کی دہلی شاخ کے صدر کلیم الحفیظ نے بتایا کہ اسد الدین اویسی کے قافلے پر حملے کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں مجلس کے کارکنوں نے پر امن احتجاج کیا ہے اور مقامی انتظامیہ کو میمورنڈم سونپ کر واقعے کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
اسی درمیان مجلس کے کارکنوں نے جمعرات کی شام کو حیدر آباد میں دکانیں بند کرا کر حملے کے خلاف احتجاج کیا۔
حیدرآباد پولیس کے مطابق متعدد دکان داروں نے اپنی دکانیں از خود بند کیں جب کہ کچھ دکانیں مجلس کے کارکنوں نے بند کرائیں۔ تاہم تاریخی چار مینار کے اطراف میں دکانیں کھلی رہیں۔
چار مینار کے اطراف میں واقع مسجدوں میں اویسی کی سلامتی کے لیے خصوصی دعائیں کی گئیں اور حملے کے خلاف بطور احتجاج سیاہ جھنڈے لہرائے گئے۔
اسی درمیان اسد الدین اویسی کے چھوٹے بھائی اور تیلنگانہ کے رکن اسمبلی اکبر الدین اویسی دہلی پہنچ گئے ہیں۔ اکبر الدین بھی اپنی مبینہ جارحانہ تقریروں کی وجہ سے بعض طبقات کا ہدف بنتے رہے ہیں اور اس سے قبل ان پر بھی حملے ہو چکے ہیں۔
اسد الدین اویسی کے قافلے پر جمعرات کی شام کو ہاپوڑ کے نزدیک چھجارسی ٹول پلازہ پر اس وقت دو افراد نے فائرنگ کی جب وہ میرٹھ میں ایک انتخابی جلسے میں شرکت کے بعد دہلی لوٹ رہے تھے۔
اس سلسلے میں پولیس نے دو افراد کو گرفتار کیا ہے۔ جن کے نام سچن شرما اور شبھم ہیں۔ دونوں دہلی کے قریب نوئیڈا کے ایک گاؤں کے رہائشی ہیں۔
اسد الدین اویسی نے الیکشن کمیشن اور ریاستی و مرکزی حکومت سے اس واقعے کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔انھوں نے دہلی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اس حملے میں دو لوگ ہی ملوث نہیں ہیں بلکہ اس میں کچھ بڑے لوگ بھی شامل ہیں جو یو پی کی انتخابی مہم کے دوران ان کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اترپردیش کے پریاگ راج میں منعقد ہونے والی سادھوؤں کی دھرم سنسد میں ان کے خلاف بیان دیا گیا تھا البتہ حکومت خاموش رہی۔ اسی طرح ان کے خلاف بیان بازی ہوتی ہے لیکن کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔
ان کے الفاط میں اگر وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیرِ اعلیٰ یوگی حملے کی سازش میں ملوث افراد کو بچانے کی کوشش کریں گے تو ملک کو شدید نقصان ہو گا۔
رپورٹس کے مطابق حملے کے دوران اسد الدین اویسی کی گاڑی کو نقصان پہنچا البتہ کوئی زخمی نہیں ہوا۔ انھیں اپنی گاڑی بدل کر دوسری گاڑی سے دہلی واپس آنا پڑا۔
ٹول پلازہ کے سی سی ٹی وی ویڈیو میں، جو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہے، دو افراد کو فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
کلیم الحفیظ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران حملے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ جب اویسی کا قافلہ ہاپوڑ کے نزدیک چھجارسی ٹول پلازہ کو عبور کر رہا تھا تو ایک شخص نے اسد الدین اویسی کی کار پر فائرنگ کی البتہ ان کا ڈرائیور گاڑی کو نکال کر آگے لے گیا۔
ان کے مطابق اسد الدین اویسی کے پیچھے والی گاڑی کے ڈرائیور نے حملہ آور پر گاڑی چڑھا دی جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہو گیا اور گر گیا۔ اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ اس شخص کے گرنے کے بعد دوسرے شخص نے فائرنگ شروع کر دی البتہ وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔پولیس کے مطابق اس دوسرے شخص نے بعد میں خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔
ہاپوڑ کے ایس پی دیپک بھوکر نے میڈیا کو بتایا کہ ان دونوں سے پوچھ گچھ جاری ہے۔ دونوں نے بتایا ہے کہ وہ اسد الدین اویسی کے ہندوتوا مخالف بیانات سے ناراض تھے۔ وہ کئی دن سے ان کا پیچھا کر رہے تھے اور جب انھیں موقع ملا انھوں نے حملہ کر دیا۔
ملزموں سے پوچھ گچھ کرنے والی پولیس ٹیم کے مطابق دونوں افراد کے خیالات نظریاتی طور پر انتہاپسندانہ ہیں۔ ان کی عمریں 20 سال کے آس پاس ہیں۔ اویسی نے ہندوتوا مخالف بیانات دینے کے الزام کی تردید کی ہے۔
ریاست کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (لا اینڈ آرڈر) پرشانت کمار کے مطابق حملہ آوروں کی جانب سے استعمال کیے جانے والے ہتھیار مل گئے ہیں اور ایک آلٹو کار بھی برآمد کی گئی ہے۔ ان کے مطابق کسی کو ماحول خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
کلیم الحفیظ کا کہنا ہے کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کا دعویٰ ہے کہ ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی صورت حال بہتر ہے۔ لیکن یہ واقعہ ان کے دونوں کو آئینہ دکھاتا ہے۔
انھوں نے الزام لگایا کہ ا س وقت جب کہ انتخابی ضابطۂ اخلاق نافذ ہے شرپسند عناصر کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ انھوں نے ایک ایسے شخص پر فائرنگ کی جو دو بار رکن اسمبلی اور چار بار ایم پی منتخب ہوا اور ایک پارٹی کا قومی صدر ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس سے قبل دہلی میں اویسی کے گھر پر حملہ ہواتھا مگر حملہ آوروں کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں ہوئی۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ ان کے گھر پر اور ان پر حملہ کرنے والے ایک ہی نظریے کے ماننے والے ہیں۔
اس حوالے سے سینئر تجزیہ کار آلوک موہن وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اسمبلی انتخابات کے لیے جاری مہم کے دوران کسی رہنما پر حملے کا یہ پہلا واقعہ ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی صورتِ حال اچھی نہیں ہے۔
ان کے بقول امت شاہ، یوگی آدتیہ ناتھ اور دیگر بی جے پی رہنما بار بار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یوگی حکومت میں لا اینڈ آرڈر کی صورت حال بہتر ہوئی ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ ابھی تک کہیں کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا تھا لیکن اویسی پر حملے نے تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔
ان کے مطابق الیکشن کمیشن کو اس واقعے کا نوٹس لینا چاہیے اور آئندہ ایسا کوئی واقعہ نہ ہو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسد الدین اویسی پر حملے کا مقصد ان کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنا تھا۔ جب کہ بعض دوسرے لوگ الزام عائد کرتے ہیں کہ بی جے پی جذباتی ایشوز کو ہوا دے کر عوام کو مذہب کی بنیاد پر مزید تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن وہ اس میں ناکام رہی ہے۔
آلوک موہن کے مطابق حالیہ الزامات کے پیشِ نظر اس بات کی ضرورت ہے کہ اس واقعے کی جانچ کی جائے تاکہ حملے کے مقصد اور اس کے پیچھے کے لوگوں کا پتا لگایا جا سکے۔
حکومت اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے مذہب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے اور انتخابات میں جذباتی ایشوز اٹھانے کے الزام کی تردید کی جاتی رہی ہے۔
ادھر وزیرِ اعظم نریندر مودی نے جمعےکو مغربی اترپردیش کے رائے دہندگان سے آن لائن خطاب میں کہا کہ ریاست کو یوگی آدتیہ ناتھ جیسے رہنماؤں کی ضرورت ہے۔
دریں اثنا یوگی آدتیہ ناتھ نے جمعے کو گورکھپور سے الیکشن لڑنے کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کیے۔ اس موقع پر ان کے ساتھ مرکزی وزیرِ داخلہ امت شاہ بھی موجود تھے۔
اس سے قبل امت شاہ نے بی جے پی کے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ بی جے پی یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں 300 سے زائد نشستیں جیتے گی۔
خیال رہے کہ اترپردیش اسمبلی میں کل 403 نشستیں ہیں۔ 2017 کے انتخابات میں بی جے پی کو 325 نشستیں ملی تھیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اس بار بی جے پی کے حالات سخت ہیں۔ اسے اکھلیش یادو کی سماجوادی پارٹی اور جینت چوہدری کی راشٹریہ لوک دل کا اتحاد چیلنج کر رہا ہے۔
اسد الدین اویسی نے پارلیمنٹ میں اپنے اوپر ہونے والے حملے کا معاملہ اٹھایا اور وزارتِ داخلہ کی جانب سے پیش کی گئی زیڈ کٹگری کی سیکیورٹی لینے سے انکار کر دیا۔
انھوں نے لوک سبھا میں خطاب میں کہا کہ وہ موت سے نہیں ڈرتے۔ ان کو زیڈ کٹگری کی سیکیورٹی نہیں چاہیے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان کو اے کٹگری کا شہری بنایا جائے۔انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ منافرت اور انتہاپسندی ختم کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ 1994 سے سیاست میں ہیں۔ انہیں سیکیورٹی نہیں چاہیے۔ وہ آزاد زندگی جینا چاہتے ہیں گھٹن والی نہیں۔انھوں نے سوال کیا کہ ان کو (حملہ آوروں کو) کس نے انتہاپسند بنایا۔
انھوں نے کہا کہ ہری دوار، پریاگ راج اور رائے پور میں منعقد ہونے والی دھرم سنسدوں (ہندو مذہب کے اجتماعات) میں ان کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں لیکن حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
جب اسپیکر نے انھیں جلد تقریر ختم کرنے کو کہا تو انھوں نے کہا کہ مجھے بولنے دیجیے۔ میں یہاں نہیں بولوں گا تو کہاں بولوں گا۔میرے اوپر چھ فٹ دور سے گولی چلائی گئی۔
انھوں نے بھی دو بھارت کی بات کہی اور کہا کہ ایک محبت والا بھارت ہے جو ہمیشہ سے رہا ہے اور اب ایک نفرت والا بھارت بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔