رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر: حکومت پر تنقید کرنے والے سوشل میڈیا صارفین کی پکڑ دھکڑ شروع


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے بھارت کے خلاف 'پراپیگنڈہ' کرنے والے سوشل میڈیا صارفین کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی ہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ بعض سوشل میڈیا صارفین فیس بک ، ٹوئٹر ، انسٹاگرام اور دیگر پلیٹ فارمز پر مخاصمانہ اور معاندانہ مواد ڈال کر عالمی سطح پر بھارت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع راجوری میں منگل کو پولیس نے شوکت حسین نامی شہری کو حراست میں لیا ہے۔ شوکت پر الزام ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو اپ لوڈ کی تھی جس میں حکام کے مطابق بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی اہانت کی گئی ہے۔

راجوری کے دہریاں گاؤں کے محلہ نمب سے تعلق رکھنے والے شوکت کے بارے میں پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ ملزم کی جانب سے پوسٹ کردہ ویڈیو میں قابلِ اعتراض مواد موجود ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق 'قوم اور سماج دشمن' سوشل میڈیا صارفین پر کڑی نظر رکھی جارہی ہے اور ایسے افراد کی فہرست بھی تیار کرلی ہے جنہوں نے سوشل میڈیا کو بھارت مخالف پراپیگنڈے کے لیے استعمال کرنا اپنا معمول بنالیا ہے۔

ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بعض سوشل میڈیا صارفین بھارت مخالف مہم چلانے کے ساتھ ساتھ کشمیری نوجوانوں کو تشدد پر اکسارہے ہیں ۔

عہدیدار نے مزید بتایا کہ یہ معاملہ اعلیٰ پولیس حکام کے ایک حالیہ اجلاس کے دوران زیرِ غور آیا تھا جس کے بعد پولیس سائبر سیل کو سوشل میڈیا مانیٹرنگ کے لیے مناسب اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی گئی تھی۔

'کور گروپ' اجلاس میں سوشل میڈیا کا ذکر

سوشل میڈیا کا مبینہ غلط اور ناجائز استعمال 'کور گروپ' کے ایک حالیہ اجلاس کے دوران بھی زیر غور آیا تھا۔

'کور گروپ' بھارتی فوج، نیم فوجی دستوں، وفاقی پولیس فورسز، سراغ رساں اداروں اور سول انتظامیہ کے اعلیٰ افسران پر مشتمل باڈی ہے جو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی حفاظتی صورتِ حال اور متعلقہ معاملات پر غور و خوض کرنے اور ضروری حکمتِ عملی ترتیب دینے کے لیے ہر ماہ ایک یا ایک سے زیادہ مرتبہ اجلاس منعقد کرتی ہے۔

'کورگروپ' کا تازہ اجلاس اختتام ہفتہ سری نگر کی بادامی باغ چھاؤنی میں واقع بھارتی فوج کی پندرہویں کور کے صدر دفتر میں ہوا تھا۔ اجلاس کی صدارت کور کمانڈر لیفٹننت جنرل دیپیندر پرتاپ پانڈے اور جموں و کشمیر پولیس کے ڈائریکٹر جنرل دلباغ سنگھ نے مشترکہ طور پر کی تھی۔

بھارتی کشمیر میں صحافت اور صحافی مشکل میں
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:14 0:00

عہدیداروں کے مطابق اس اجلاس کا بنیادی ایجنڈا اگرچہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی مجموعی حفاظتی صورتِ حال پر غور اور 26 جنوری کو منائے جانے والے بھارت کے یوم جمہوریہ کی مناسبت سے انتظامات کا جائزہ لینا تھا۔ البتہ اجلاس کے دوران شرکا نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے 'پراپیگنڈے کے مربوط سلسلے سے پیدا شدہ چیلینج ' پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

اس اجلاس کے بعد جاری کیے گیے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ سوشل میڈیا کو 'غلط معلومات' پھیلانے کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے جس کی بیخ کنی کے لیے ایک مشترکہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

'بھارت مخالف پراپیگنڈے کا مسکن پاکستان ہے'

یاد رہے بھارت کی وزارت اطلاعات و نشریات نے گزشتہ دنوں ملک میں مزید پنتیس یو ٹیوب چینلز، دو ویب سائٹس اور پانچ سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بلاک کردیا تھا ۔عہدیداروں نےالزام لگایا تھا کہ یہ چینلز اور اکاؤنٹس ان کے بقول پاکستان سے چلائے جارہے تھے اور ان کا مقصد جعلی مواد کے ذریعے بھارت مخالف پراپیگنڈہ کرنا ہے تاہم پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔

اس سے قبل دسمبر 2021 میں حکومت نے 20ایسے یو ٹیوب چینلز اور دو ویب سائٹس بلاک کر دی تھیں جن کےبارے میں حکام کا کہنا تھا کہ وہ 'فیک نیوز' یعنی جعلی خبریں پھیلارہی ہیں ۔

انیس جنوری کو بھارت کے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر نے خبردار کیا تھا کہ حکومت ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرتی رہے گی جو اُن کے بقول ملک کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ مستقبل میں بھی ایسے کسی بھی اکاؤنٹ کو بلاک کرنے کی کارروائی کی جائے گی جو بھارت کے خلاف سازش میں ملوث پایا جائے گا۔

'حکومت احساسِ عدم تحفظ کی شکار ہے'

ناقدین کہتے ہیں کہ حکومت اور اس کے ذیلی ادارےسوشل میڈیا پر ان اقدامات کے خلاف اٹھنے والی آواز سے خائف ہیں جن کا مقصد اختلاف کو دبانا ہے ۔

تجزیہ کار پروفیسر شیخ شوکت حسین کہتے ہیں "لگتا ہے کہ حکومت احساسِ عدمِ تحفظ کا شکار ہے۔ جس کی طرف سے اٹھائے جانے والے حالیہ اقدامات اس کا مظہر ہیں۔ "

انہوں نے کہا کہ پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری ختم کرنے کے بعد کہا گیا تھا کہ اس اقدام سے کشمیر میں جاری مزاحمت پوری طرح ختم ہوگئی ہے۔ اب بظاہر مین اسٹریم میڈیا سمیت ہر چیز پر قدغن لگادی گئی ہے، سوشل میڈیا واحد پلیٹ فارم تھا جہاں کچھ نوجوان اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے لیکن اب حکومت کی خواہش ہے کہ اس پر بھی پابندی لگا دی جائے۔

پروفیسر شیخ شوکت نے مقتدر حلقوں کو تاریخ سے سبق سیکھنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اندرا گاندھی نے بھی مزاحمت کو دبانے کے لیےملک میں ایمرجنسی نافذ کی تھی لیکن صرف دو سال بعد یعنی 1977 میں انہیں اور ان کی کانگریس پارٹی کو عام انتخابات میں عبرت ناک شکست سے دو چار ہونا پڑا تھا۔

انہوں نے مزید کہا "یہ دیکھا گیا ہے کہ دنیا میں استحکام وہا ں رہا جہاں اظہارِ رائے کی مکمل آزادی تھی اور لوگوں کواپنے خیالات کا اظہار کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا گیا۔ دھونس، دباؤ اور اظہاررائے کی آزادی پر پابندی ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں، کشمیر میں جو لوگ اس ڈھنگ سے سوچ رہے ہیں انہیں اس کا ادراک ہونا چاہیے"۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG