پاکستان کی معروف کاروباری شخصیت میاں محمد منشا نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی روابط بحال کرنے کے لیے بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے بات چیت جاری ہے جس کے بہت جلد مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔
میاں منشا کے اس بیان پر تاحال حکومت کا کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے البتہ پاکستان کا ماضی میں یہ مؤقف رہا ہے کہ جب تک بھارت کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ واپس نہیں لیتا اس کے ساتھ تجارتی اور سفارتی روابط کو فروغ نہیں دیا جائے گا۔
بھارت کےساتھ تجارتی روابط کی بحالی کے لیے بیک ڈور چینل گفت و شنید سے متعلق میاں منشا کے بیان پر تاجر برادری بھی منقسم نظر آتی ہے۔بعض تاجروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارتی روابط پاکستان کے مفاد میں ہیں جب کہ بعض کے خیال میں قومی مؤقف پر سمجھوتا کر کے بھارت کے ساتھ تعلقات کو آگے نہیں بڑھانا چاہیے۔
بدھ کی شام ایوانِ صںعت وتجارت لاہور میں تاجروں کے اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے میاں منشا نے کہا تھا کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان معاملات بہتر ہوئے تو بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی ایک ماہ کے اندر پاکستان کا دورہ کر سکتے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ کوئی دشمنی مستقل نہیں ہوتی جن ملکوں نے دو عالمی جنگیں لڑیں وہ بھی امن کے لیے آگے بڑھے۔
صنعت کار میاں ابوزر شاد کے نزدیک میاں منشا کا بیان درست نہیں ہے۔ اُن کے مطابق پاکستان کو بھارت کے ساتھ تجارت دوبارہ شروع کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے صنعت کار ابوذر شاد نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تجارت متوازن ہونی چاہیے۔ اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بھارت پاکستان سے نمک لیتا ہے جس کو وہ مزید بہتر بنا کر دوسرے ممالک کوبھیجتا ہے۔
اِسی طرح بھارت پاکستان سے جپسم لیتا ہے اور سیمنٹ بنا کر بیچتا ہے۔ پاکستان یہ سب کام خود بھی کر سکتا ہے۔ اُن کی رائے میں پاکستان کو اپنا کوئی بھی خام مال بھارت کو برآمد نہیں کرنا چاہیے۔
اُن کے بقول پاکستان بھارت سے کپاس، کیمیکل اور اجناس درآمد کرتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بھارت نے اپنی صنعت کی بہتری اور تحقیق پر بہت کام کیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں گندم کی فی ایکٹر پیداوار 40 من ہے جب کہ بھارت میں 80 من فی ایکٹرہے۔
'منڈی جتنی بڑی ہو گی اسی لحاظ سے کاروبار بھی بڑھے گا'
الماس حیدر جو پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں اور ایوانِ صنعت وتجارت لاہور کے سابق صدر بھی ہیں ابوزر شاد کی بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تجارتی منڈی جتنی زیادہ بڑی ہو اور کھلی ہو اُس کا فائدہ کاروبا ر کے پھیلاؤ کی صورت میں ہوتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئےالماس حیدرے کہا کہ پاکستان کو پاک بھارت تجارتی تعلقات، پاک ایران تجارتی تعلقات یا پاک افغان تجارتی تعلقات سے آگے نکل کر سوچنا چاہیے۔
اُنہوں نے کہا کہ تجارت کا تو اصول ہی یہ ہے کہ تجارت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ اُنہوں نے کہا کہ یورپ میں جب تجارتی لحاظ سے سرحدوں کو ختم کیا گیا تو اُن ملکوں کے کاروبار چھوٹے ہونے کے بجائے بڑھتے تھے اور ان کی صنعتوں کو فروغ حاصل ہوا تھا۔
اُنہوں نے کہا کہ ڈبلیو ٹی او بھی اِسی لیے آیا تھا جس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ سرحدوں کو کھولا جائے اور ایک دوسرے کے ساتھ کاروبار کو بڑھایا جائے۔ ایسا کرنے سے وہ ملک مقامی منڈی سے نکل کر عالمی منڈی (گلوبل منڈی) کی طرف جا سکے۔
خیال رہے کہ پاکستا ن نے اگست 2019 میں بھارت کی جانب سے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے بعد بھارت کے ساتھ تجارتی روابط ختم کر دیے تھے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان زیادہ تر تجارت واہگہ اور کشمیر کے ذریعے ہوتی تھی۔
اس سے قبل بھارت نے بھی فروری 2019 میں پاکستان کو پلوامہ حملے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے تجارت کے لیے پسندیدہ ملک کا درجہ واپس لے لیا تھا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی حجم کیا تھا؟
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں بھارت کو پاکستان کی برآمدات کا محض دو فی صد جب کہ اسی عرصے میں بھارت کی پاکستان کی برآمدات کا حجم محض تین فی صد تھا۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم 342 ارب روپے ہے جس میں سے پاکستان کی برآمدات کا حجم 56 ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔
اس حساب سے بھارت کے ساتھ تجارت میں پاکستان خسارے میں ہے یعنی تجارتی توازن بھارت کے حق میں ہے۔
پاکستان بھارت سے سبزیاں، کپاس، کیمیکل اور پلاسٹک درآمد کرتا ہے جب کہ پاکستان تازہ پھل، سیمنٹ، معدنیات اور چمڑے کی مصنوعات بھارت بھجواتا تھا۔
تجارت کے فروغ کے لیے ٹیکس اصلاحات ناگزیر
الماس حیدر کی رائے میں پاکستان کی حکومت کو ملک میں ٹیکس کے نظام میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ اُنہوں نےکہا کہ جب بھی آزادانہ تجارت کی بات ہوتی ہے تو اِس کے ساتھ ٹیکسوں کے نظام اور صنعتوں کے بنیادی ڈھانچے میں بھی بہتری لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ خام مال پر ٹیکس کی چھوٹ ہو تو پاکستان پوری دنیا کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
اُن کے بقول بھارت کے مقابلے میں کپڑے کی صنعت میں پاکستان کو برتری حاصل ہے۔ اِسی طرح اُنہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں ٹریکٹر، موٹرسائیکلیں اور دیگر اشیا فروخت کر رہا ہے۔
ابوذر شاد سعید الماس حیدر کی اِس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان کو اپنے ٹیکسوں کے نظام میں بہتری لانی چاہیے۔
ابوذرسعید سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے تحقیق اور ڈویلپمنٹ کے میدان میں کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔ وہ سمجھتےہیں اگر پاکستان کی بھارت کے ساتھ تجارت کھل جاتی ہے تو پاکستان کے صنعت کاروں کو دو ارب ڈالر سالانہ کا نقصان ہوسکتا ہے۔ اُن کی رائے میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارت متوازن ہونی چاہیے۔
اُن کے بقول اگر بھارت سے پاکستان کو سو روپے کا مال آتا ہے تو پاکستان سے بھی سو روپے کی اشیا بھارت جانی چاہیے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر تجارت متوازن نہیں ہو گی تو ایسی تجارت کے نقصان زیادہ اور فائدے کم ہوں گے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس مارچ میں اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ پاکستان ماضی کو دفن کر کے بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔
البتہ پاکستانی حکام کا یہ مؤقف رہا ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے تنازع کشمیر کا حل ضروری ہے۔