امریکی فوجی حکام نے متنبہ کیا ہے کہ بیجنگ کے تائیوان پر دباو بڑھانے کی پالیسی سے غلطیوں اور ممکنہ طور پر غیر ارادی لڑائی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
امریکہ کے محکمہ دفاع نے آبنائے تائیوان میں کشیدگی بڑھنے کی زمہ داری چین پر عائد کی اور خبردار کیا کہ ایسے "اشتعال انگیز" ہتھکنڈے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
پینٹاگون کے پریس سیکرٹری جان کربی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ عوامی جمہوریہ چین نے تائیوان اور دوسرے شراکت دار اور اتحادیوں کو ڈرانے اور ان پر دباو ڈالنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں اور ان کوششوں میں تائیوان، مشرقی بحیرہ چین اور جنوبی بحیرہ چین کے علاقوں میں عسکری کارروائیاں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چین کی کارروائیاں عدم استحکام کا باعث بن رہی ہیں اور ان سے غلطی سرزد ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
کربی نے کہا کہ تائیوان کے لیے امریکی عزم "چٹان کی مانند ٹھوس ہے''۔
ترجمان نے کہا، "ہمیں آبنائے تائیوان میں امن اور استحکام میں مستقل دلچسپی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم تائیوان کو اس کی مناسب دفاعی صلاحیت کو برقرار رکھنے میں اس کی مدد کریں گے۔"
انہوں نے کہا کہ امریکہ چین پر زور دیتا ہے کہ وہ آبنائے تائیوان میں اختلافات کے پر امن حل کے لیے اپنے وعدے پورے کرے۔
خیال رہے کہ چین کی طرف سے تائی پے اور بیجنگ کے دوبارہ متحد ہونے کے لیے عوامی دباؤ سے چینی اور تائیوانی رہنماوں کے درمیان بیانات کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور تائیوانی رہنماوں کا کہنا ہے کہ وہ تائیوان کو خود مختار ملک کے طور پر قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
اتوار کو تائیوان کی صدر سائی انگ وین بے اپنے قومی دن کا تہوار مناتے ہوئے کہا کہ وہ موجودہ حیثیت کو یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کسی کوشش کو بھرپور انداز سے روکنے کے لیے پورا زور لگائیں گے۔
انہوں نے کہا: "ہم اپنے قومی دفاع کو مضبوط تر بنانا جاری رکھیں گے اور ہم اپنے دفاع کے ارادے کا اظہار کریں گے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی ہمیں چین کا طے کردہ راستہ اپنانے پر مجبور نہ کرسکے۔"
سائی کے بیان سے پہلے چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا کہ چین اور تائیوان کے درمیان اتحاد ضرور ہونا چاہیے۔
شی جن پنگ نے کہا تھا: "کسی کو بھی چین کی اپنے علاقائی اتحاد اور قومی خودمختاری کے دفاع کے معاملات پر مضبوط عزم کو کمزور نہیں سمجھنا چاہیے۔"
حالیہ دنوں میں چین کے میڈیانے ان رپورٹس کے خلاف احتجاج کیا ہے جن کے مطابق تائیوان میں امریکی اسپیشل فورسز اور میرین فوجیوں کا ایک چھوٹا دستہ موجود ہے جو تائیوان کی فورسز کی ٹریننگ کر رہا ہے۔
امریکی دفاعی حکام نے تواتر سے مبینہ ٹریننگ کی رپورٹس پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔ اس بارے میں سب سے پہلے خبر اخبار دی وال اسٹریٹ جرنل نے دی تھی۔
پینٹاگون کے پریس سیکرٹری کربی نے منگل کے روز سوالات کے جواب میں کہا کہ ان کے پاس ان رپورٹس کے متعلق عوامی سطح پر کچھ بھی کہنے کو نہیں ہے۔
امریکی فوج اور انٹیلی جنس حکام کی چین کے تائیوان کےخلاف جارحانہ عسکری انداز پر تشویش بڑھ رہی ہے۔ چین کی جارحانہ پالیسی اس وقت نمایاں طور پر سامنے آئی جب کئی روز تک ڈیڑھ سو سے زائد چینی جنگی جہازوں نے تائیوان کی فضائی دفاعی حدود کی خلاف ورزی کی۔
اس سال جون کے مہینے میں امریکی عسکری حکام نے اس امکان پر سوال اٹھائے کہ چین قوت کے استعمال سے زبردستی تائیوان کو اپنے کنٹرول میں لے سکتا ہے۔
امریکی فوج کے چیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے کہا چین کو تائیوان کے پورےجزیرے کو ملٹری کارروائی سے حاصل کرنے کے لیے حقیقی اور سنجیدہ صلاحیت حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ فوجی کارروائی کے ذریعے ایسا کرنے کا کوئی ارادہ یا تحریک دکھائی نہیں دے رہی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے حملے کے امکانات کم ہیں لیکن چین کے لیے تائیوان کے ساتھ اتحاد ایک بنیادی قومی مفاد وابستہ ہے۔