رسائی کے لنکس

افغانستان میں امن: 'دنیا پاکستان کو مسئلے کا حل سمجھتی ہے، مسئلے کی وجہ نہیں'


امریکہ پاکستان کا افغان امن عمل میں مثبت کردار کا معترف ہے اور دنیا پاکستان کے کردار کو بھلا نہیں سکتی، شاہ محمود قریشی
امریکہ پاکستان کا افغان امن عمل میں مثبت کردار کا معترف ہے اور دنیا پاکستان کے کردار کو بھلا نہیں سکتی، شاہ محمود قریشی

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں تشدد میں زیادہ اضافہ ہوا ہے، جس کی ان کے بقول کافی حد تک افغان حکومت بھی ذمہ دار ہے۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ دنیا پاکستان کو مسئلے کا حل سمجھتی ہے، مسئلے کی وجہ نہیں سمجھتی۔​

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ افغان قیادت پاکستان کے بارے میں کچھ بھی کہتی رہے، امریکہ پاکستان کا افغان امن عمل میں مثبت کردار کا معترف ہے اور دنیا پاکستان کے کردار کو بھلا نہیں سکتی۔

وزیر خارجہ نے اسلام آباد میں نیوزکانفرنس کے دوران کہا کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کی امن فوج کی تعیناتی ہمارے علم میں نہیں، ترکی سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ کابل کے ہوائی اڈے پر سیکیورٹی ذمہ داریاں برقرار رکھے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ مکمل طور پر آگاہی رکھتا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ ان کے بقول زلمے خلیل زاد نے پاکستان کا دورہ کیا اور دیکھا کہ پاکستان نے امن کے لیے اپنی خدمات سرانجام دیں اور مذاکرات کے لیے ہر ممکن تعاون کیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ان کی اس حوالے سے امریکی حکام کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ بات ہوئی ہے۔ ان کے بقول پوری دنیا اس بارے میں پاکستان کے مثبت کردار کو تسلیم کر رہی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغانستان میں تشدد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، افغان حکومت بھی اس کی کافی حد تک ذمہ دار ہے، پاکستان مستحکم اور پرامن افغانستان چاہتا ہے۔

امریکی انخلا کے بعد افغان حکومت اور صدر غنی کا مستقبل کیا ہوگا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:23 0:00

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں تشدد میں اضافے پر پاکستان کو تشویش ہے۔ ان کے بقول افغانستان میں تشدد میں اضافہ میں مختلف عناصر بھی شامل ہیں جن میں داعش اور ’سپائلرز‘ بھی شریک ہیں۔

ان کے بقول ان سپائلرز کی دو اقسام ہیں جن میں سے ایک افغانستان کے اندر اور ایک باہر ہیں، یہ لوگ افغانستان میں امن نہیں چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں استحکام کے لیے اپنی ہر ممکن مدد فراہم کر رہا ہے۔

دوسری طرف تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی امریکی صدر جو بائیڈن سے ہونے والی ملاقات میں افغان صدر امریکی حمایت جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ، انخلا کے بعد افغان فوج کے لئے ٹریننگ اور مالی امداد جاری رکھنے پر بھی زور دیں گے۔

بقول ماہرین افغان قیادت کی یہ بھی خواہش ہو گی کہ اتحادی افواج کے انخلا کے باعث ملک کو درپیش چیلنچز کے علاوہ پاکستان پر مزید دباؤ ڈالنے کے حوالے سے بھی بات کریں، تاکہ بین الافغان امن عمل میں پیش رفت ہو سکے۔

خیال رہے کہ دو روزہ دورہ امریکہ کے دوران قومی مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ بھی افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے اعلیٰ سطی وفد میں شامل ہیں۔

افغان امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ صدر اشرف غنی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان کا رول بہت اہمیت کا حامل ہے، جس کے بعد افغانستان میں امن کے حوالے سے پاکستان حالات کا تعین کرے گا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے مزید بتایا کہ امریکی صدر سے ملاقات کے دوران پاکستان کے کردار پر ضرور بات ہو گی۔ ان کے مطابق پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ بہتر ہوگا کہ افغان صدر دورہ امریکہ کے دوران افغان صورتحال پر پاکستان کو مورد الزام نہ ٹھہرائیں۔

افغانستان میں لڑائی میں شدت کے حوالے سے رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ اس وقت جنگ افغانستان کے شمال میں ہو رہی ہے، جو کہ پاکستانی سرحد سے بہت دور ہے اور وہاں پر انہیں فتوحات حاصل ہو رہی ہیں۔ ان کے بقول یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ افغانستان میں ہر کارروائی کی خاطر پاکستان کو قربانی کا بکرا نہیں بنایا جا سکتا اور افغانستان کو اپنے گریبان میں بھی جھانکنا ہو گا۔

رحیم اللہ یوسفرزی کا مزید کہنا تھا کہ افغان وفد کی خواہش ہو گی کہ امریکہ پاکستان پر مزید دباؤ ڈالے کہ طالبان کو فوجی اقدام کے بجائے افغانستان کا مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دے۔

غیر ملکی افواج کا انخلا، افغانستان میں خانہ جنگی کا خدشہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:46 0:00

انہوں نے مزید کہا کہ عالمی سطح پر پاکستان کے کردار کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ حقیقت میں پاکستان کی پوزیشن بہت محدود ہے اور اب دیگر 'پلیئر' بھی افغانستان میں اپنا رول ادا کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق ایک سابقہ افغان آرمی چیف نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر پاکستان چاہے تو ایک دن میں افغانستان میں جنگ رُک سکتی ہے اور امن قائم ہو سکتا ہے۔

افغان امور کے ماہر کا مزید کہنا تھا کہ ایسی باتوں کا حقیقت سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں ہے کیونکہ اس جنگ کے کئی عوامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب 2001 میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو ان کے چند طالبان لیڈر اپنے خاندان سمیت پاکستان آئے۔

افغان قیادت ایک ایسے وقت میں امریکہ کا دورہ کر رہی ہے جب افغانستان میں لڑائی عروج پر ہے۔ طالبان نے اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ طالبان دعویٰ کر رہے ہیں کہ مئی سے لے کر اب تک وہ 100 سے زائد اضلاع پر قبضہ کر چکے ہیں۔

ادھر امریکی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ امریکی انخلا کے بعد طالبان ایک سال کے اندر کابل کا کنٹرول حاصل کر سکتے ہیں۔

پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کئے گئے ایک بیان کے مطابق امریکی سیکریٹری برائے سیاسی امور کی سفیر وکٹوریہ نولینڈ نے سیکریٹری خارجہ سہیل محمود سے بذریعہ ٹیلی فون بات کی ہے جس میں انہوں نے دو طرفہ تعلقات اور علاقائی امور پر تبدلہ خیال کیا۔

بات چیت کے دوران سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے افغان امن مذاکرات میں تیزی لانے اور افغانستان سے غیر ملکی افواج کے ذمہ دارانہ انخلا کی اہمیت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ بین الاقوامی سٹیک ہولڈرز کے لئے ضروری ہے کہ وہ تمام افغان جماعتوں کو ایک جامع، وسیع البنیاد اور جامع سیاسی تصفیے کے حصول کے لئے تعمیری طور پر مصروف عمل ہوں۔

افغان قیادت کے دورہ امریکہ کے حوالے سے سابق سفارتکار اور افغان امور کے ماہر رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے کہ یہ دورہ افغان صدر کی بقا کی آخری کوشش معلوم ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صدر اشرف غنی کی یہ کوشش ہو گی کہ وہ صدر بائیڈن کو باور کرا سکیں کہ افغانستان کی موجودہ حالات کی وجہ بیرونی قوتوں کی مداخلت ہے، اس لئے امریکہ کو چاہئے کہ طالبان اور پاکستان پر پریشر بڑھائے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ اب یہ امریکی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ حالات کا تفصیلی جائزہ لیں آیا وہ ایک ایسی حکومت ہے جس کا کنٹرول مکمل طور پر ناپید ہو چکا ہے۔ اس کے فوجی اس کا ساتھ ٹینکوں اور اسلحہ سمیت چھوڑ رہے ہیں، کیا امریکہ ایسی حکومت کو بچانے کے لیے مزید اقدامات کرے گا؟ یہ اب ان کی صوابدید ہے۔

تاہم، رستم شاہ مہمند کے مطابق صدر اشرف غنی اپنی حکومت کے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے، لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ امریکی ان سے متفق ہو جائیں گے۔

سابق سفیر کا مزید کہنا تھا کہ افغان مسئلے کے حل کا ایک ہی طریقہ ہے، جس کے مطابق ایک لویہ جرگہ بلایا جائے جو کہ ایک نگران حکومت کا قیام عمل میں لائے۔ جس میں طالبان سمیت باقی دھڑے بھی شامل ہوں اور افغانستان کے مستقبل کا روڈ میپ کا تعین کرے۔

ان کے بقول موجودہ سیٹ اپ کے مطابق نہ حکومت چل رہی ہے اور نہ ہی عوام تک اس کے اثرات پہنچ رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG