''باجی آپ کا ماتھا چمک رہا ہے قسمت کی دیوی آپ پر جلد ہی مہربان ہونے والی ہے'' مجھے مخاطب کرنے والے کے جملے میں کوئی سحر تھا جس نے میرے آگے بڑھتے قدموں کو روک دیا تھا اگرچہ، میرے سامنے کھڑے نوجوان کا حلیہ کہیں سے بھی روایتی پیروں یا فقیروں جیسا نہیں تھا لیکن وہ اپنے آپ کو 'جوتش' بتا رہا تھا اور ایک ماہرسیلز مین کی طرح جلدی جلدی اپنی ’پراڈکٹ‘ کے بارے میں بتا رہا تھا۔
''میں نے اپنے علم کی روشنی میں دکھ لیا ہے کہ کیسے ایک خاتون دشمن نے آپ کی زندگی میں زہر گھول رکھا ہے لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ کی قسمت اچھی ہےجو آپ کی مجھ سےملاقات ہو گئی ہے''۔
میری طرف سے کسی قسم کی تصدیق یا تردید سننے کا انتظارکیے بغیر وہ مجھے اطمینان دلا رہا تھا کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہےاس کے پاس ہر عمل کا توڑہے اور وہ اپنےعملیات سے مجھ پر کسی بری چیز کا سایہ نہیں پڑنے دے گا ۔
اس کی کہانی کافی دلچسپ تھی کیونکہ، یہ شخص مجھ سے صرف میرے دس پندرہ منٹ مانگ رہا تھا اور اس کا دعوی تھا کہ وہ میری زندگی کی دیگر مشکلات کو بھی چٹکیوں میں رفع دفع کر سکتا ہے۔
ایک بار تو میں واقعی سوچ میں پڑ گئی کہ کیا وہ سچ مچ کوئی ایسا علم رکھتا ہے لیکن اگلے ہی لمحے اس کے چہرے کی انجانی خوشی نے مجھے چونکا دیا جو تیر نشانے پر لگتا دیکھ کر اس طرح خوش ہو رہا تھا جیسے اس نے میرا نہیں بلکہ کوئی اپنا مسئلہ حل کر لیا ہو ۔
بھلا ہو میری تردد کی اس فطرت کا جس نے مجھےصحیح وقت پر چونکا دیا اور اس خیال سے مجھے ہنسی آ گئی کہ شاید یہ دنیا کا واحد آدمی ہو گا جو مجھ سے زیادہ میرے مسائل حل کرنے کی جلدی میں ہے۔
اس نے لمحہ بھرکے لیے گردن گھما کرکسی دوسرے گاہک کی تلاش شروع کی اور ٹھیک اسی وقت میں نے وہاں سے آگے بڑھنے میں عافیت جانی ویسے بھی اسوقت میں شاپنگ سینٹر میں خریداری کرنے آئی تھی۔
لندن میں رہنے والوں کے لیے یہ ایک معمول کا واقعہ ہے جسے میں بھی چند دنوں میں بھول جاتی لیکن اگلی شام اسوقت میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب لندن کے مشہور انڈین پاکستانی بازار ’گرین اسٹریٹ‘ پر ایک خاتون نے میرے ہاتھ میں بنگالی عامل بابا کا وزٹنگ کارڈ تھما دیا جس میں صاف صاف لکھا تھا کہ وہ موت کےسوا لوگوں کی ہر قسم کی مشکلات شرطیہ دورکر سکتے ہیں جبکہ اس پیشکش کے ساتھ منی بیک گارنٹی کا وعدہ بھی موجودتھا ۔
عامل بابا کا اشتہار اس جوتش کی باتوں کی طرح سادہ لوح افراد کے لیے کافی پرکشش لگ رہا تھا۔
اس بات کی ایک مثال حالیہ دنوں میں ہندوستانی پاکستانی ٹی وی چینلز پرجوتشی، روحانی علاج، ستاروں کا علم،ہاتھ کی لکیریں ،استخارہ جیسے ٹی وی پروگراموں کی بھرمار ہےجہاں خواتین دن بھر کالیں ملاتی ہیں اورصاحب علم حضرات سے اپنی قسمت کا حال معلوم کرتی ہیں جبکہ اس مختصر سی کال کے بدلے میں انھیں اچھی خاصی موٹی رقم (پونڈ ) کی صورت میں ادا کرنی ہوتی ہے۔
لندن میں علم نجوم جاننے والوں کی تعداد کیا اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ اب گلیوں محلوں میں ایسے لوگ نظر آنے لگے ہیں؟ اس سوال کا جواب مجھے مشرقی لندن کے ایک ایسٹورنٹ میں کام کرنے والی خاتون رانی سے ملا جس نے مجھے بتایا کہ ان دنوں یہ جوتشی حضرات بڑی باقاعدگی سے ریسٹورنٹس کا چکر کاٹتے ہیں ان کا زیادہ تر نشانہ مشکل حالات کا شکار پاکستانی طالب علم بنتے ہیں بلکہ میرے ساتھ کام کرنے والا ایک نوجوان ہرہفتے ایک سکھ جوتشی کو بیس اور کبھی پچیس پونڈ ہفتے میں دیتا ہےجو بقول اس کے بھابھی کےجادو کا توڑ کر رہا ہے۔
اگرچہ علم نجوم یا دیگر علوم کے حوالے سے میری معلومات کافی ناقص ہے لیکن کسی بھی علم کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کے لیے آپ کو اپنی تاریخ پیدائش اور دیگر معلومات کا تبادلہ کرنا ہوتا ہے لیکن راہ چلتے لوگوں کے ماتھے کی لکیروں میں پڑھا جانے والے علم کے بارے میں مجھے کوئی علم نہیں تھا لہذا اپنی معلومات میں اضافے کے لیے میں نے غوثیہ مسجد لی برج روڈ سے وابستہ علامہ جنید سے رابطہ کیا ۔
علامہ جنید نے اس موضوع پر مفصل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''بحثیت علم اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ستاروں کو دیکھنا یا ہاتھ کی لکیروں کو پڑھنا ایک علم ہے اور اگر کوئی شخص واقعی اس علم کو جانتا ہے تو وہ صحح نتیجے تک پہنچ سکتا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتنے لوگ ہیں جو اس علم کو جانتے ہیں۔۔۔۔اور پھرشریعت کی حد میں رہتے ہوئے اس کا استعمال کرتے ہیں لیکن ان دنوں ایسے علم کو کاروبار بنا کر لوگوں کو ٹھگنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔‘‘
علامہ صاحب نے بتایا کہ’’غیب کے بارے علم ہونا انسان کے حق میں اچھا نہیں ہوتا ہے، فرض کریں کہ مجھے ایک ہاتھ دیکھنے والا یہ پیش گوئی کر دے کہ میں کل مر سکتا ہوں تو اس بات کے خوف سے میں آج ہی جینا چھوڑ دوں گا۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ جہاں تک ایسے علم کا دعوی رکھنے والوں کا تعلق ہے کہ وہ کیوں کامیاب ہیں تو ان کے لیے لوگوں کو اپنے دام میں لینا اس لیے آسان ہے کہ ایسے لوگ فنکار ہوتے ہیں وہ سامنے والے شخص کے چہرے سے اس کے ماضی کی ایک خیالی تصویر بنا لیتے ہیں اور اب اسے آپ کے سامنے کتاب کی طرح پڑھتے ہیں جس میں آپ انجانے میں ہی شریک ہوجاتے ہیں اور آپ کے جملوں سےوہ ایک پورا نقشہ بالکل ایسے ہی تیار کر لیتے ہیں جیسے ایک ماہر تعمیرات آپ کے خیالات سننے کے بعد آپ کی من پسند گھر کا نقشہ تیار کر لیتا ہے ۔
علامہ جنید نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ علم نجوم ضرور موجود ہے لیکن ہماری زندگی کی خرابیوں کو دور کرنے کا اختیار ایسے لوگوں کے پاس نہیں ہے۔