رسائی کے لنکس

بھارت میں کسانوں کا احتجاج: پرتشدد واقعات میں آٹھ ہلاکتیں، وزیر کے بیٹے کے خلاف مقدمہ درج


بھارتی یوتھ کانگریس کے کارکن کسانوں کی ہلاکت پر نئی دہلی میں احتجاج کر رہے ہیں۔
بھارتی یوتھ کانگریس کے کارکن کسانوں کی ہلاکت پر نئی دہلی میں احتجاج کر رہے ہیں۔

بھارت کی ریاست اتر پردیش میں اتوار کو کسانوں کے احتجاج کے دوران تشدد کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد آٹھ ہو گئی ہے جب کہ علاقے میں صورتِ حال میں اب بھی کشیدہ ہے۔

خیال رہے کہ اترپردیش کے علاقے لکھیم پور کھیری میں اتوار کو ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ اور مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا کے دورے کے خلاف کسانوں کے احتجاج کے دوران تشدد پھوٹ پڑا جس میں آٹھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔

رپورٹس کے مطابق ہلاک شدگان میں چار کسان ہیں۔ اجے مشرا کے مطابق تشدد میں ان کا ڈرائیور اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے تین کارکن بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

وزیر کے بیٹے پر الزامات

کسان تنظیموں کا الزام ہے کہ احتجاج کے دوران مرکزی وزیر اجے مشرا کے بیٹے آشیش مشرا کی کار اور دو مزید کاریں وہاں پہنچی تھیں۔ کسانوں نے ان گاڑیوں کے سامنے مظاہرہ کرنا شروع کیا تو ان کے مطابق جس گاڑی میں آشیش مشرا بیٹھے ہوئے تھے وہ کسانوں پر چڑھا دی گئی جس کے نتیجے میں کسانوں کی ہلاکت ہوئی۔

لکھیم پور کھیری کی پولیس نے آشیش مشرا اور کئی دیگر افراد کے خلاف قتل اور متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔ کسان تنظیموں نے آشیش مشرا کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے اور گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے اس واقعہ کی سپریم کورٹ کے کسی موجودہ جج سے تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔

کسان تنظیم ”بھارتیہ کسان یونین“ کے ترجمان راکیش ٹکیت نے غازی پور بارڈر سے لکھیم پوری کھیری پہنچنے کے بعد مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا کو مرکزی کابینہ سے برطرف کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ کسان مظاہرے کے بعد واپس لوٹ رہے تھے کہ ان پر گاڑی چڑھا دی گئی اور فائرنگ بھی کی گئی۔ انہوں نے کسانوں کی جانب سے فائرنگ کیے جانے کی تردید کی۔

پولیس اور کسانوں میں سمجھوتہ

واقعہ کے فوراً بعد ریاست کے ایڈیشنل جنرل آف پولیس (لا اینڈ آرڈر) پرشانت کمار موقع پر پہنچ گئے اور انہوں نے کسانوں سے امن و امان کے قیام کی اپیل کی۔

رپورٹس کے مطابق کسانوں نے پیر کو ہلاک شدہ کسانوں کی میتیں سڑک پر رکھ کر مظاہرہ کیا اور ان کی آخری رسوم ادا کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔

پرشانت کمار نے کسانوں کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور اعلان کیا کہ حکومت ہلاک شدگان کے لواحقین کو 45 لاکھ اور ہر زخمی کو دس دس لاکھ روپے دے گی۔ اس کے علاوہ ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ میں سے ایک ایک شخص کو سرکاری ملازمت دے گی۔ انہوں نے واقعہ کی عدالتی تحقیقات کا بھی اعلان کیا۔

رپورٹس کے مطابق احتجاجی کسانوں اور پولیس کے درمیان معاہدہ ہو جانے کے بعد کسانوں نے احتجاج ختم کر دیا اور پولیس کو ہلاک شدگان کی آخری رسومات ادا کرنے کی اجازت دے دی۔

ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے واقعہ کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ بھی قصور وار پائے جائیں گے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

وزیر کی جانب سے الزامات کی تردید

ادھر مرکزی وزیر اجے مشرا نے گاڑی میں اپنے بیٹے کی موجودگی کی تردید کی اور کہا کہ مظاہرین نے کاروں کے قافلے پر حملہ کیا تھا اور دو گاڑیوں کو جن میں ایک ان کی تھی اور دوسری ایک بی جے پی کارکن کی تھی، نذر آتش کر دیا۔

انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ شر پسندوں نے گاڑیوں میں موجود لوگوں کو زدوکوب کیا جس کے نتیجے میں گاڑی کے ڈرائیور سمیت چار افراد ہلاک ہو گئے۔ ہلاک شدگان میں تین بی جے پی کے کارکن ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب تین گاڑیوں کے قافلے پر مظاہرین نے حملہ کر دیا تو ڈرائیور نے بچنے کی کوشش میں گاڑی کو دوسری طرف لے جانا چاہا جس کے دوران وہ توازن کھو بیٹھا اور گاڑی مظاہرین پر چڑھ گئی۔ ان کے مطابق اگر ان کا بیٹا اس وقت وہاں ہوتا تو اسے بھی ہلاک کر دیا گیا ہوتا۔ ان کے بیٹے نے بھی وہاں اپنی موجودگی سے انکار کیا۔

ملک کے مختلف علاقوں میں مظاہرے

رپورٹس کے مطابق اس واقعہ کے خلاف ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والے مظاہروں کے پیشِ نظر دہلی پولیس نے دہلی غازی پور سرحد کو سیل کر دیا۔ دہلی، ہریانہ اور اترپردیش میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی۔ دہلی غازی پور سرحد پر سریع الحرکت فورس کے جوانوں نے شرپسندوں سے نمٹنے کی مشق کی۔

ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی اس واقعہ کے خلاف کسانوں نے مظاہرہ کیا اور لکھیم پور کھیری کے کسانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔

ادھر اپوزیشن کی جانب سے اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے اور اپوزیشن رہنما لکھیم پور پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پرینکا گاندھی زیرِ حراست

کانگریس رہنما پرینکا گاندھی نے اتوار کی رات لکھنو سے لکھیم پور جانے کی کوشش کی لیکن پولیس ان کو روکتی رہی۔ کم از کم پانچ گھنٹے تک پرینکا اور دیگر کانگریسی رہنماؤں کو روکے جانے کے بعد پولیس نے سیتاپور میں پرینکا گاندھی کو حراست میں لے لیا۔

الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو وائرل ہے جس میں پرینکا گاندھی حراست میں لیے جانے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس کمرے میں جھاڑو لگا رہی ہیں جس میں انہیں رکھا گیا ہے۔ ان کے ساتھ دوسرے کانگریسی رہنماوں کو بھی حراست میں لیا گیا۔

پرینکا کے بھائی اور سینئر کانگریس رہنما راہول گاندھی نے ایک ٹوئٹ میں پرینکا سے کہا کہ حکومت تمہاری بہادری سے ڈر گئی ہے۔ انصاف کے لیے یہ عدم تشدد پر مبنی لڑائی ہے۔ انہیں یقین ہے کہ جیت کسانوں کی ہوگی۔

پنجاب کانگریس کے صدر نوجوت سنگھ سدھو نے لکھیم پور واقعہ اور پرینکا کو حراست میں لیے جانے کے خلاف چنڈی گڑھ میں دھرنا دیا۔

اکھلیش یادو گرفتار

اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے پیر کی صبح کو لکھیم پور جانے کی کوشش کی۔ پولیس کے روکے جانے پر وہ دھرنے پر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔

سماجوادی پارٹی کے کارکن پورے لکھنو شہر میں مظاہرے کرتے رہے۔ اسی دوران اکھلیش یادو کے گھر کے سامنے کھڑی ایک پولیس جیپ کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ اکھلیش نے الزام لگایا کہ پولیس نے ہی گاڑی میں آگ لگائی ہے۔

ریاست چھتیس گڑھ کے کانگریسی وزیرِ اعلیٰ بھوپیش بگھیل نے لکھیم پور جانے کی کوشش کی لیکن پولیس نے ان کا ہیلی کاپٹر اترنے نہیں دیا۔ اسی طرح دوسری پارٹیوں کے لیڈروں کو بھی وہاں جانے نہیں دیا جا رہا ہے۔

رپورٹس کے مطابق لکھیم پور کھیری میں انٹرنیٹ خدمات بند کر دی گئی ہیں اور میڈیا کو بھی جائے وقوعہ پر جانے کی اجازت نہیں ہے۔

مزید تشدد کا اندیشہ

سینئر تجزیہ کار اور انسانی حقوق کے کارکن ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت طاقت سے کسان تحریک کو کچلنا چاہتی ہے۔ جس طرح حکومت تحریک کو ختم کرانے کی کوشش کر رہی ہے اس سے یہ اندیشہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے بھی بڑا تشدد ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لکھیم پور کے واقعہ سے حکومت کی نیت واضح ہوتی ہے۔ پولیس اپوزیشن لیڈروں کو وہاں جانے سے روک رہی ہے اور انہیں گرفتار کر رہی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ حکومت جھکنے کو تیار نہیں ہے۔

ان کے خیال میں حکومت پر کارپوریٹ اور عالمی مالیاتی اداروں کا دباؤ ہے لہٰذا اس کا امکان کم ہے کہ حکومت متنازعہ زرعی قوانین واپس لے۔

ان کے مطابق اس تحریک کی ابتدا سے ہی حکومت طاقت کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ پہلے تو کسانوں پر ہریانہ میں طاقت کا استعمال کیا گیا۔ وہ دہلی آنا چاہتے تھے تو انہیں دہلی نہیں آنے دیا گیا۔

ان کے بقول 26 جنوری کو دہلی پولیس نے راستہ تبدیل کرکے تحریک کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ اس نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال بھی کیا۔ اس کے علاوہ شروع سے ہی یہ الزام لگایا جاتا رہا کہ اس تحریک میں دہشت گرد، خالصتانی اور پاکستانی شامل ہیں۔ اس طرح کسانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔

ایک اور تجزیہ کار ونود اگنی ہوتری نے اس واقعہ کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ حکومت اور کسان سب کے مفاد میں ہے کہ حکومت تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے۔

انہوں نے کہا کہ عام طور پر حکومتیں ایسے معاملات میں اپوزیشن رہنماوں کو جائے واردات پر پہنچنے سے روکنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن یہ حکومت اس معاملے میں زیادہ سخت واقع ہوئی ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ اپوزیشن رہنما لکھیم پور پہنچیں۔

ان کے مطابق جب وہاں کسانوں کا احتجاج چل رہا تھا تو اجے مشرا کے بیٹے کو وہاں جانے کی کیا ضرورت تھی۔

ان کے خیال میں حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ طاقت سے کسانوں کی تحریک کو دبا دے گی۔ اسی لیے وہ اس قسم کے اقدامات کر رہی ہے۔

البتہ بھارتی حکومت کسانوں کی تحریک کو زبردستی کچلنے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے واضح کر چکی ہے کہ وہ زرعی قوانین کسانوں کی بہتری کے لیے لائے جا رہے ہیں۔

حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ کسان تنظیموں کے ساتھ بیٹھ کر اس معاملے میں بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG