بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کے مضافات میں شہر کو ملانے والی شاہراہوں پر گزشتہ آٹھ ماہ سے حکومت مخالف کسان احتجاج جاری ہے۔ بھارتی کسان حکومت سے ان زرعی قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو مودی حکومت نے زرعی منڈیوں کو کھولنے کی غرض سے نافذ کیے ہیں۔
ںئی دہلی سے وائس آف امریکہ کی نامہ نگار انجنا پسریچا نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ان مسلسل احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں نے گزشتہ آٹھ ماہ میں بھارت کے سبھی گرم و سرد موسموں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے ۔ ملک کے مختلف حصوں سے آ کر دہلی میں جمع ہونے والے کسان ابھی تک اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہیں۔
انہوں نے نئی دہلی کے اہم داخلی راستوں پر عارضی پناہ گاہیں تعمیر کر لی ہیں اور اپنی ضرورت کے راشن اور پانی کی ترسیل کا مناسب بندوبست کر رکھا ہے۔ سخت ٹھٹھرتی ہوئی سردیوں کے بعد انتہائی گرم موسم کا مقابلہ کرتے ہوئے یہ مون سون بارشوں سے بچنے کے لیے عارضی چھتوں تلے بیٹھے ہیں۔ اور اس پر مستزاد کرونا وبا کا انتہائی عروج بھی ان دھرنوں نے دیکھا۔
پچھلے سال بھارت کی پارلیمنٹ نے تین زرعی قوانین منظور کیے تھے جن کے تحت نجی کمپنیوں کو اجازت دی گئی تھی کی وہ زرعی اجناس کھلی منڈیوں سے خرید سکتی ہیں۔
ان قوانین کو مسترد کرتے ہوئے، کسان سڑکوں پر نکل آئے اور نئی دہلی کا رخ کیا۔ شہر میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر انہوں نے داخلی راستوں کے دہانوں پر مستقل ڈیرہ جما لیا۔
پنجاب سے آئے ہوئے ایک کسان ہری چندر سنگھ کہتے ہیں کہ ہم سخت موسموں میں محنت کرنے کے عادی ہیں اور اس لیے یہاں احتجاج کرتے ہوئے ہمیں کوئی دقّت نہیں، کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ تکلیف کے بغیر کامیابی نہیں ملتی۔ ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے بڑا خطرہ یہ قوانین ہیں اور اسی لیے وہ یہاں سے اس وقت تک جانے کے لیے تیار نہیں، جب تک یہ قوانین واپس نہیں لیے جاتے۔
بھارت کے اکثر کاشت کاروں کے پاس زمینوں کے چھوٹے چھوٹے رقبے ہیں، جہاں وہ مختلف فصلیں اگاتے ہیں۔ بیجوں، کھادوں اور ڈیزل ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے یہ کسان پہلے ہی شاکی تھے، مگر ان نئے قوانین نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ان کے خیال میں نجی کمپنیوں کے عمل دخل سے ان کا منافع اور بھی کم ہو جائے گا۔
ایک اور کسان درشن سنگھ کہتے ہیں کہ زمین ہی ہماری جمع پونجی ہے، یہی ہماری ماں باپ ہے اور اگر یہ خطرے میں پڑ جائے تو ہمارے پاس کیا بچے گا۔ حکومت ہماری فصلوں کو طے شدہ امدادی نرخوں پر خریدتی تھی اور ہمیں معلوم رہتا تھا کہ چاول گندم یا دالوں کی کیا قیمت ملے گی۔ اب ان نئے قوانین کے بعد ہمیں کچھ پتہ نہیں ہو گا کہ ہماری اجناس کس بھاؤ بازار میں خریدی جائیں گی۔ اب ہم شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
دوسری طرف وزیر اعظم مودی نے کاشت کاروں کو یقین دلایا ہے کہ ان قوانین کے ذریعے ان کے لیے نئی منڈیاں کھلیں گی، نئی ٹیکنالوجی آئے گی اور ان کی زرعی آمدنی میں اضافہ ہو گا۔
کچھ اقتصادی ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ بھارت کی زراعت کو جدید طرز پر ڈھالنے، پیداواری صلاحیت کو بڑھانے اور نجی سرمایہ کاری کو لانے کی ضرورت ہے، تاکہ کاشت کار زیادہ نقدآور فصلیں اگانے پر راغب ہوں۔ اس سے نہ صرف ان کی آمدنی بڑھے گی بلکہ ملک کی کل قومی پیداوار میں اضافہ ہو گا۔
مگر بیشتر کاشت کاران دلائل کو نہیں مانتے۔ سنگھ کہتے ہیں کہ حکومت کا خیال ہے کہ ہم ان قوانین کو سمجھ نہیں سکے، کچھ لوگ ہم کو جاہل سمجھتے ہیں۔ آخر ہمیں یہ کیوں ہمارے فوائد گنوانا چاہتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار نیرجا چودھری کہتی ہیں کہ احتجاج کرنے والے ثابت قدم رہیں گے کیوں کہ ان کا داوٗ پر بہت کچھ لگا ہوا ہے۔ ان کو ڈر ہے کہ اس قانون سے زراعت بڑی کارپوریشنوں کے قبضے میں آ جائے گی اور بالآخر چھوٹے کسان اپنی زمین پر کام کرنے والے مزدور بن جائیں گے۔
حال ہی میں ان کاشتکاروں کو ایک چھوٹی سی کامیابی بھی ملی اور ایک مختصر سی تعداد کو ایوان کے جاری اجلاس کے موقع پر ان کو پارلیمنٹ کے باہر روزانہ احتجاج کرنے کی اجازت دے دی گئی۔
کسانوں نے سیاست دانوں کو متنبہ کیا کہ جس جماعت نے قوانین کی واپسی کی حمایت نہ کی تو وہ اس پارٹی کی مخالفت کریں گے۔
اگلے سال بھارت کی پانچ اہم ریاستوں میں صوبائی انتخابات ہونے والے ہیں، اس تناظر میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہو گا کہ کس طرح کسانوں کی حمایت حاصل کی جائے گی۔
پچھلے سال حکومت اور کاشت کاروں کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے، مگر کوئی بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔ کسانوں کا اصرار ہے کہ قوانین کی واپسی کے علاوہ انہیں کچھ منظور نہیں ہو گا۔
کاشتکاروں کے اس طویل احتجاج کا موڈ موسموں کی طرح بدلتا رہا۔ کسان اپنی ضرورتوں کے مطابق جلسہ گاہوں میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ اور اس طرح وہ اپنی زمینوں کی دیکھ بھال اور فصلیں اگانے کا کام بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
کاشت کار درشن سنگھ کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنی زمینوں پر جاتے ہیں، تب بھی ہماری جدوجہد جاری رہتی ہے۔ ہر روز ہماری نظریں ٹی وی پر لگی رہتی ہیں کہ شاید کسی دن یہ خبر آ جائے کہ حکومت نے یہ قوانین واپس لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔