اس ہفتے جب میانمار کی ریاستی کاؤنسلر، آنگ سان سوچی نے ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف میں خطاب کیا، تو امن کی نوبیل انعام یافتہ شخصیت کے بہت سے حامیوں نے اس وقت انہیں مایوسی سے دیکھا جب انہوں نے ان الزامات کی تردید کی کہ میانمار کی فوج نے روہنگیا مسلم آبادی کے خلاف استبدادی کارروائیاں کی تھیں۔
وکلائے استغاثہ کا کہنا ہے کہ ان کی کارروائیاں قتل عام تک کے ضمرے میں آتی ہیں اور بہت سے نقادوں کا کہنا ہے کہ مسلم اقلیت کے ساتھ مسلسل ایذا رسانی کی کچھ ذمہ داری سوچی پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ان کارروائیوں کی وجہ سے دس لاکھ کی مسلم آبادی میں سے تین چوتھائی ملک سے فرار ہو چکی ہے۔
اس ماہ کے شروع میں میانمار کے مغربی قصبے پاتھین میں درجنوں روہنگیا مسلمانوں کو گنجائش سے زیادہ بھری جیل کی کوٹھریوں میں ٹھونس دیا گیا۔ انہیں ملک میں غیر قانونی طور پر سفر کے الزامات پر جیل میں ڈالا گیا تھا۔
فورٹی فائی رائٹس گروپ کے جان کونلی کا کہنا ہے کہ روہنگیا کو نقل و حرکت کی آزادی نہیں دی جاتی۔ ہم نے حال ہی میں روہنگیا سے جبری مشقت اور قومیت کے حقوق پر پابندی کے بارے میں رپورٹ دی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ بین الاقوامی عدالت انصاف کو ریاست راکھین میں روہنگیا کے خلاف جاری ایذا رسانی اور تشدد کے خاتمے کے لیے فوری طور پر عارضی اقدامات کرنے چاہیئں۔
میانمار کی ریاستی کونسلر آنگ سان سوچی نے اس ہفتے ملک کی فوج کے خلاف ان الزامات کا دفاع کیا کہ اس نے روہنگیا کے خلاف قتل عام کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج کے اقدامات دہشت گردی کے خلاف جائز ردعمل تھے۔
انہوں نے کہا کہ میانمار عدالت سے درخواست کرتا ہے کہ اس مقدمے کو اپنی فہرست سے ہٹا دے۔ ایسے اقدامات مصالحت کو متاثر کر سکتے ہیں جو شبہ پیدا کریں، شکوک کے بیج بوئیں، یا ان کمیونٹیز کے درمیان رنجشیں پیدا کریں، جنہوں نے ابھی حال ہی میں اعتماد کی نازک بنیادیں استوار کرنا شروع کی ہوں۔
ہیگ میں ان کا جانا اور ان کے الفاظ نے مغرب میں بہت سوں کو مایوس کیا ہے۔
روہنگیا کے لیے انسانی حقوق سے متعلق سرگرم کارکن یاسمین اللہ کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت کہ مز سوچی نے اور، ان کی ٹیم نے اس قتل عام کو چھپایا جن کا ارتکاب ہوا یا اس حقیقت کا ذکر نہیں کیا کہ کوئی انفرادی یا اجتماعی آبرو ریزی، یا کوئی جنسی اور جنس کی بنیاد پر تشدد ہوا تھا، یہ انتہائی پریشان کن صورت حال تھی۔
آنگ سان سوچی کو کسی زمانے میں انسانی حقوق کی ایک عالمی امید سمجھا جاتا تھا، جو اس فوجی حکومت کے خلاف کھڑی ہو گئی تھیں جس نے انہیں 2010 تک، بیس سال کے بیشتر عرصے میں قیدی بنا کر رکھا تھا۔ 1991 میں امن کا نوبیل انعام جیتنے والی شخصیت 2016 میں میانمار کی سویلین حکومت کی لیڈر بن گئی تھیں۔ ان کے سابق حامی ان پر روہنگیا کے خلاف استبداد روکنے میں ناکامی کا الزام لگاتے ہوئے ان کے کھلم کھلا نقاد بن چکے ہیں۔
برما مہم کے مارک فارمنر کہتے ہیں کہ وہ ایک ایسی شخصیت تھیں، جو لوگوں باہم منظم رکھ سکتی تھیں۔ انہیں ملک بھر کی تمام مذہبی اور نسلی گروپس کی پذیرائی حاصل تھی۔ اور انہوں نے ویسا کرنے کی بجائے اس کے برعکس کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی ان بودھ قوم پرست جذبات کی حامل ہیں۔ یہ کہ وہ بھی روہنگیا کے خلاف تعصب رکھتی ہیں اور وہ ان کے خلاف امتیازی پالیسیوں کی کوشش کر رہی ہیں۔
آنگ سان سوچی کے میانمار میں ابھی تک خاص طور پر لاکھوں بودھ حامی موجود ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ وہ ایک ایسے متنوع نسلی ملک کو چلانے کے لیے اپنی بہترین کوشش کر رہی ہیں، جس کی عنان اقتدار ابھی تک فوج کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن، میانمار کی اقلیتیں یہ محسوس کرتی ہیں کہ ان کے ساتھ دھو کہ ہوا ہے۔
برما مہم کے مارک فارمنر کہتے ہیں کہ دوسرے نسلی گروپس کے لوگ اس عدالت میں انہیں فوج کا، ایک ایسی فوج کا دفاع کرتے دیکھ رہے ہیں جو برسوں ان کے خلاف اسی قسم کے جرائم کا ارتکاب کر چکی ہے، اور وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم کس طرح اس شخصیت پر کبھی بھی اعتماد کر سکتے ہیں، ہم اب اس خاتون پر کس طرح اعتماد کر سکتے ہیں۔
یہ ہے وہ احساس جو دنیا بھر میں بہت سے لوگ بھی رکھتے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ آنگ سان سوچی کا اپنے مقام سے گرنا مزید تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔