میانمار کی جمہویت نواز رہنما آنگ سان سو چی منگل کو مسلح گروپوں اور حکومت کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات کے پہلے دن شرکا سے خطاب کریں گی۔
دارالحکومت پیٹا میں نوبل انعام یافتہ رہنما کا خطاب کسی ممکنہ حتمی امن معاہدے کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
گزشتہ سال نومبر میں ہونے والے انتخابات میں ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے پچیس سال بعد ہونے والے ملک کے پہلے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی اور مارچ میں اسے اقتدار منتقل کیا جائے گا۔
میانمار کے صدر تھائن شین اور فوج کے سربراہ من آنگ ہلینگ منگل کو مذاکرات کے افتتاحی اجلاس میں شریک ہوں گے۔ تھائن شین کی حکومت 2011 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے باغی گروہوں سے مذاکرات کر رہی ہے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں کئی سال سے خود مختاری کی جنگ لڑنے والے کچھ باغی گروہوں کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا۔
آئین کے تحت آنگ سان سوچی ملک کی صدر نہیں بن سکتیں کیونکہ ان کے مرحوم شوہر برطانوی شہری تھے اور ان کے دو بیٹے بھی برطانوی شہری ہیں۔ مگر 70 سالہ رہنما نے کہا ہے کہ صدر چاہے کوئی بھی ہو اہم فیصلے وہ خود کریں گی۔ انہیں اقتدار میں آنے کے بعد حکومت کو پرامن طور پر چلانے کے لیے فوج کے ساتھ انتظامی روابط قائم کرنے کی ضرورت ہو گی۔
آئین کے تحت فوج پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں 25 فیصد نمائندے نامزد کرنے کا اختیار رکھتی ہے اور فوج کے سربراہ کو تین طاقتور وزارتوں کے سربراہ تعینات کرنے کا اختیار بھی ہے جس کے ذریعے وہ میانمار کی خاصی بڑی بیوروکریسی پر اپنا اثرورسوخ استعمال کر سکتے ہیں۔