آسٹریلیا کے عہدیداروں کو نوجوان خواتین کی بنیاد پرست اسلامی گروپوں کی بڑھتی ہوئی حمایت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وزرا ء نے اس بارے میں متنبہ کیا ہے کہ آسٹریلیا کی کچھ شہریوں نے مبینہ طور شدت پسندوں سے شادی کرنے کے لیے عراق اور شام کا سفر کیا ہے۔
کینبرا کا خیا ل ہے کہ لگ 30 سے 40 آسٹریلوی خواتین جو شاید دہشت گرد حملوں میں شامل رہی ہیں یا وہ دہشت گرد گروپ داعش کی حمایت کر رہی ہیں۔ ان میں سے کئی ایک اپنے ملک میں ان تنظیموں کو مدد فراہم کر رہی ہیں جبکہ کئی ایک دوسر ی (خواتین ) مشرق وسطیٰ چلی گئی ہیں۔
آسٹریلیا کی وزیر خارجہ جولی بشپ نے پارلیمان کو بتایا کہ آسٹریلوی خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد داعش کے ساتھ لڑنے والے اپنے شوہروں کے ساتھ شامل ہونے یا شدت پسندوں کے ساتھ شادی کے لیے عراق اور شام جارہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ (خواتین) مشرق وسطیٰ کا سفر کریں گی تو یہ (ان کے لیے)" کوئی رومانوی تجربہ" نہیں ہو گا۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ غیر ملکی خواتین کو آخر میں یا تو جنسی غلام یا کچھ واقعات میں خود کش بمبار بننا پڑا۔
آسٹریلیا کے سکیورٹی ادارو ں کی ملک کے اندر انتہا پسندی پر تشویش بڑھتی جارہی ہے اور عہدیداروں کو اس بار ے میں تشویش ہے کہ ان بنیا د پرست خواتین کے ملک واپس آنے کے بعد کیا ہو گا۔ خیا ل کیا جار ہا ہے کہ تقریباً 90 آسٹریلوی نوجوان مرد شام اور عراق میں داعش کے ہمراہ لڑ رہے ہیں۔
جولی نے قانون سازوں کو بتایا کہ شام اور عراق میں غیر ملکی جنگجوؤں میں تقرییاً 20 فیصد خواتین ہیں اور ان میں شامل ہونے والے آسٹریلیا کے شہریوں کی تعداد ایک تشویش ناک امر ہے۔
دوسری طرف ایسی اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں کہ کر د جنگجوؤں کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف لڑنے والا ایک آسٹریلوی شخص شمالی شام میں ہلاک ہو گیا ہے۔
پیر کو وزیر اعظم ٹونی ایبٹ نے انسداد دہشت گردی کے نئے قوانین کا اعلان کیا تھا جس میں شہریت اور امیگریشن قوانین کو سخت کرنے اور ان گروپوں کے خلاف کارروائی کرنا بھی شامل ہے جو مذہبی اور نسلی منافرت پھیلاتے ہیں۔
گزشتہ ستمبر میں کینبرا نے ملک کے اندر سکیورٹی خطرات کی سطح کو درمیانے درجے سے بلند درجے تک بڑھا دیا تھا۔