آسٹریلیا میں آگ بجھانے والے محکمے کا عملہ ملک کی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے جنگلات میں لگی آگ پر قابو پانے کی کوششوں میں مسلسل مصروف ہے۔
حکام نے درجہ حرارت میں اضافے اور تیز ہواؤں کے باعث آنے والے دنوں میں آگ میں شدت آنے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔
اتوار کو نیو ساؤتھ ویلز کی ریاست میں ہنگامی صورت حال کا اعلان کر دیا گیا تھا۔
آسٹریلیا کی ’رورل فائر سروس‘ کے مطابق آگ لگنے کے باعث تباہ ہونے والے گھروں کی تعداد میں مزید اضافہ ممکن ہے اور آگ پر قابو پانے میں مصروف عملے کے اراکین کے مطابق صورت حال میں بدھ تک بہتری کا امکان نہیں۔
سڈنی کے مغرب میں ’بلیو ماؤنٹینز‘ کے علاقے کی بعض آبادیوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ حکام یہاں کے رہائیشیوں کو علاقہ چھوڑنے کے احکامات دے سکتے ہیں۔
’بلیو ماؤنٹینز‘ میں لگ بھگ 76 ہزار افراد آباد ہیں اور اُن میں سے صرف اُن علاقوں کو خالی کرائے جانے کا امکان ہے جو براہ راست آگ سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
آگ تقریباً 300 کلو میٹر کے علاقے میں پھیلی ہوئی ہے اور اس سے اب تک 200 سے زائد گھر تباہ ہو چکے ہیں۔
اس آگ کو بجھانے میں مصرف دو ہزار فائر فائیٹرز کو ہیلی کاپٹروں کی مدد بھی حاصل ہے جو فضا سے پانی پھینک رہے ہیں۔ لیکن ان تمام کوششوں کی کامیابی کا زیادہ تر انحصار موسم کی نوعیت پر ہے کیوں کہ آنے والے دنوں میں مزید تیز ہوائیں متوقع ہیں۔
حکام نے درجہ حرارت میں اضافے اور تیز ہواؤں کے باعث آنے والے دنوں میں آگ میں شدت آنے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔
اتوار کو نیو ساؤتھ ویلز کی ریاست میں ہنگامی صورت حال کا اعلان کر دیا گیا تھا۔
آسٹریلیا کی ’رورل فائر سروس‘ کے مطابق آگ لگنے کے باعث تباہ ہونے والے گھروں کی تعداد میں مزید اضافہ ممکن ہے اور آگ پر قابو پانے میں مصروف عملے کے اراکین کے مطابق صورت حال میں بدھ تک بہتری کا امکان نہیں۔
سڈنی کے مغرب میں ’بلیو ماؤنٹینز‘ کے علاقے کی بعض آبادیوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ حکام یہاں کے رہائیشیوں کو علاقہ چھوڑنے کے احکامات دے سکتے ہیں۔
’بلیو ماؤنٹینز‘ میں لگ بھگ 76 ہزار افراد آباد ہیں اور اُن میں سے صرف اُن علاقوں کو خالی کرائے جانے کا امکان ہے جو براہ راست آگ سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
آگ تقریباً 300 کلو میٹر کے علاقے میں پھیلی ہوئی ہے اور اس سے اب تک 200 سے زائد گھر تباہ ہو چکے ہیں۔
اس آگ کو بجھانے میں مصرف دو ہزار فائر فائیٹرز کو ہیلی کاپٹروں کی مدد بھی حاصل ہے جو فضا سے پانی پھینک رہے ہیں۔ لیکن ان تمام کوششوں کی کامیابی کا زیادہ تر انحصار موسم کی نوعیت پر ہے کیوں کہ آنے والے دنوں میں مزید تیز ہوائیں متوقع ہیں۔