آسٹریلیا نے اپنے ملک کی مجموعی 'قومی خیریت' کا اندازہ لگانے کے لئے ایک انوکھا طریقہ اختیار کیا ہے۔ ایک ایسا آن لائن ڈیش بورڈ تیار کیا گیا ہے، جس میں عوام کی صحت، تعلیم اور ماحولیات کے موضوع پر ملک کی مجموعی ترقی کا اندازہ لگانے کے لئے اشارے یا علامتیں درج ہوں گی ۔
آسٹریلیا کو امید ہے کہ اس آن لائن ڈیش بورڈ کی مدد سے ملک کے اقتصادی اور سماجی مقاصد کے درمیان بہتر توازن پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ ڈیش بورڈ پانچ کیٹیگریز میں عوام کی خیریت کا خبرنامہ صحت مندی، تحفظ ، پائیداری، ہم آہنگی اور خوشحالی کے نکتہ نظر سے جاری کرے گا اور اسے سالانہ بنیاد پر اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔
یہ اضافی معیار ملک کی مجموعی پیداوار، افراط زر اور روزگار جیسے روایتی اقتصادی اشاریوں میں شامل کئے جائیں گے۔ آسٹریلیا کے محکمہ خزانہ کے عہدےدار جم چالمرز کے مطابق عام خیال یہ ہے کہ سماجی اور اقتصادی مقاصد ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتے لیکن ان کے بقول، میرے خیال میں ان میں ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے اور یہی نکتہ 'مجموعی قومی خیریت' کے اس نئے فریم ورک کی بنیاد بنا ہے۔
ڈیش بورڈ کے ساتھ ایک سو ستائیس صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کی گئی ہے۔اس رپورٹ میں ’’میژرنگ واٹ میٹرز‘‘ (Measuring What Matters) کے عنوان سے آسٹریلیا میں شہریوں کی صحت و خیریت کی ایک ملی جلی تصویر پیش کی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آسٹریلیا میں اوسط عمر ، تنوع، آمدنی اور روزگار میں ترقی اور وسائل کے زیاں میں کمی ہوئی ہے لیکن صحت کی صورتحال، ملکی دفاع، حیاتیاتی تنوع اور مالی استحکام میں تنزلی دیکھی گئی ہے۔ تقریباً نصف آبادی کو صحت کے ایک یا ایک سے زیادہ مسائل کا سامنا رہا، جبکہ تیرہ فیصد آبادی نے ذہنی صحت کے مسائل کی نشاندہی کی۔ صحت کی سہولتوں تک رسائی اور علاج معالجےکے لیے انتظار کی طوالت بڑھنا بھی ان مسائل میں شامل رہا۔
ایک اندازے کے مطابق، آسٹریلیا میں خاندانوں کے مالی دباؤ میں اضافہ ہوا اور رہائش کی فراہمی کی صورتحال بھی خراب رہی اور یہ سب روز مرہ اخراجات اور قرضوں کی شرح سود میں حالیہ اضافے سے پہلے کی صورتحال تھی۔ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران مجموعی طور پر لوگوں کی خیریت ناپنے کے بیس شعبوں میں بہتری آئی ہے، سات شعبے مستحکم رہے جبکہ بارہ میں صورتحال خراب ہوئی۔
حالیہ برسوں میں کئی ممالک نے ایسی پالیسیاں اپنائی ہیں، جن میں فلاح اور خیریت کا معیار صرف معاشی خوشحالی حاصل کرنا نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر متعین کیا گیا ہے۔ ان میں سب سے مشہور مثال بھوٹان جیسے ملک کی ہے جہاں ’’مجموعی قومی خوشی‘‘ کے انڈیکس کو ’’مجموعی قومی آمدن‘‘ یا جی ڈی پی سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔
( وین کول اور الاسدیر پال کی اس رپورٹ کی تفصیلات خبر رساں ادارے رائٹرز سے لی گئی ہیں )