بحراوقیانوس کی گہرائیوں میں 1912 میں غرق ہونے والے اپنے دور کے سب سے عظیم بحری جہاز کی باقیات کے قریب پھٹنے والی ننھی آبدوز ٹائیٹن اور اس میں سوار پانچ مہم جوؤں کی ہلاکت کے بعد اس سانحے نے اب ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے کہ جب ارب پتی اپنی بلامقصد اور خطرناک مہم جوئی میں لاپتا ہو جاتے ہیں تو ان کی تلاش کا بل کسے دینا چاہیے۔
حادثات اور سانحات کے موقعوں میں سرکاری اور غیر سرکاری ایجنسیاں اور ادارے متاثرین کی جان بچاتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں۔جن کے زیادہ تر اخراجات حکومتیں ادا کرتی ہیں ۔
حادثات کے متاثرین ناگہانی طور پر ایسے حالات کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں جن کے وہ ذمہ دار نہیں ہوتے جب کہ بعض ارب پتی ایسی مہمات پر اپنی رضا سے نکلتے ہیں جن میں خطرے کا امکان نمایاں طور پر زیادہ ہوتا ہے اور اس کا مقصد بظاہر اپنی خواہشات کی تسکین یا ذاتی تشہیر ہوتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ایسی مہمات پر جانے والوں کی تلاش کے اخراجات عوام کے ٹیکسوں سے ادا کیے جانے چاہیئں؟
ٹائیٹن کی گمشدگی کے بعد اس میں سوار افراد کی تلاش کی مہم پانچ روز تک جاری رہی، جس میں امریکہ، کینیڈا اور فرانس کے وسائل استعمال ہوئے۔ اس مہم کے دوران نگران طیارے، بحری جہاز، آب دوز اور زیر آب ڈورنز سے مدد لی گئی۔
تلاش کی اہم وسیع مہم کے بارے میں امریکی کوسٹ گارڈ نے یہ بتانے سے انکار کر دیا ہے کہ اس پر کتنی لاگت آئی تھی۔ امریکی ایجنسی کا کہنا تھا کہ کوسٹ گارڈ جان بچانے کی کارروائیوں کو قیمت کے ساتھ منسلک نہیں کرتے۔ تاہم یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ ا س مشن پرکوسٹ گارد کی لاگت کا تخمینہ لاکھوں ڈالر میں ہے۔
ٹائیٹن میں ایک برطانوی ارب پتی اور پاکستان کے امیرکبیر کاروباری خاندان کے دو افراد بھی سوار تھے۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ موت کے اس سفر کا ٹکٹ ڈھائی لاکھ ڈالر فی کس میں خریدا گیا تھا۔
امریکہ کا وفاقی قانون تلاش یا امدادی سرگرمیوں کا معاوضہ وصول کرنے کی عمومی اجازت نہیں دیتا۔ سمندری قانون میں مہارت رکھنے والے امریکی اٹارنی اسٹیفن کوئرٹنگ کہتے ہیں کہ اس سے یہ اہم مسئلہ حل نہیں ہوتا کہ آیا دولت مند مسافروں یا کمپنیوں کے اس طرح کے سفر کی ذمہ داری عوام اور حکومتوں پر ڈالی جائےے جس میں وہ خود کو اپنی مرضی سے خطرے میں ڈالتے ہیں۔
لیکن یہ پہلا ایسا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل 1990 کے عشرے میں بھی اس وقت یہ سوال اٹھایا گیا تھا جب ایک ارب پتی برطانوی شخص رچرڈ برینسن نے مہم جوئی کے لیے گرم ہوا سے اڑنے والے غبارے پر سفر کیا تھا اور غبارے کے حادثے کے بعد اس کی تلاش پر کثیر فنڈز صرف ہوئے تھے۔
امریکہ میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی تنظیم نیشنل ٹیکس پیئرز یونین کے صدر پیٹ سیپ اس سلسلے میں حکومتی اخراجات سے قطع نظر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ اس بارے میں سوچے بغیر نہیں رہ سکتے کہ تلاش اور امدادی سرگرمیوں کے لیے مختص محدود وسائل کو کس طرح استعمال کیا جانا چاہیے۔
1998 میں پیش آنے والے ایک ایسے ہی واقعہ نے اس مسئلے کو مزید نمایاں کیا جب ایک اور امیر کبیر مہم جو فاسٹ نے گرم ہوا سے اڑنے والے غبارے میں دنیا کے گرد چکر لگانے کی اپنی مہم پر نکل کھڑے ہوئے۔ مگر ان کا غبارہ آسٹریلیا سے تقریباً 500 میل کے فاصلے پر سمندر میں گر گیا۔ انہیں بچانے کے لیے آسٹریلیا کی فورسز کو اپنا طیارہ استعمال کرنا پڑا اور 15 فوجیوں نے سمندر میں کود کر انہیں پانی سے نکالا اور کشتی کے ذریعے ساحل پر پہنچایا۔۔
اس وقت کئی ناقدین نے کہا تھا کہ فاسٹ کو اپنی جان بچانے پر اٹھنے والے سرکاری اخراجات اپنی جیب سے ادا کرنے چاہیئں۔ لیکن فاسٹ نے انکار کر دیا۔
اسی سال کے آخر میں یہ دونوں مہم جو ایک بار پھر گرم ہوا کے غبارے پر سوار ہو گئے اور ان کا غبارہ ہوائی کے قریب سمندر میں گر گیا۔ فاسٹ اور برینسن کو نکالنے کے لیے امریکی کوسٹ گارڈ کو ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر سے زیادہ صرف کرنے پڑے۔ جب اخراجات پر بحث مباحثہ شروع ہوا تو ارب پتی برینسن نے کہ وہ کوسٹ گارڈ کی درخواست پر یہ رقم ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن کوسٹ گارڈ نے خاموشی اختیار کی۔
یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اس واقعہ کے 9 سال کے بعد فاسٹ کا طیارہ امریکی ریاست نیواڈا پر پرواز کے دوران گر کر تباہ ہو گیا۔ مہینوں کی تلاش کے باوجود ان کے طیارے کا ملبہ نہ مل سکا۔اس تلاش پرحکومت نے سات لاکھ ڈالر جب کہ نجی ذرائع نے دو لاکھ ڈالر فراہم کیے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ریاست کے گورنر جم گبنز نے اعلان کیا کہ وہ چاہیں گے کہ حکومتی اخراجات فاست کی بیوہ ادا کریں۔ لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ وہ پرائیویٹ طور پر اپنے لاپتا شوہر کی تلاش کے لیے پہلے ہی 10 لاکھ ڈالر خرچ کر چکی ہیں۔
پر خطر مہم جوئی صرف امیروں کا ہی مشغلہ نہیں ہے بلکہ بعض کم خرچ مہمات پر عام لوگ بھی اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ریاست ایریزونا میں برسات کے دنوں میں بعض سڑکیں زیر آب آ جاتی ہیں۔ ان سڑکوں پر یہ بورڈ نصب ہیں کہ سڑک پر پانی کی صورت میں اس پر سفر سے اجتناب کیا جائے۔ لیکن بعض مہم جو اس انتباہ کو نظر انداز کر دیتے تھے اور ان میں سے کچھ مشکلات میں پھنس جاتے تھے جنہیں وہاں سے نکالنے کے لیے امدادی ٹیمیں بھیجنا پڑتی تھیں، جس پر سرکاری وسائل صرف ہوتے تھے۔ انہیں باز رکھنے کے لیے حکومت نے قانون سازی کی جس کا نام ’ احق ڈرائیوروں کے لیے قانون‘ ہے۔ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ انتباہ کے باوجود اگر کوئی ڈرائیور زیرآب سڑک پر جا کر پھنس جاتا ہے اور مدد طلب کرتا ہے تو اسے دو ہزار ڈالر معاوضہ ادا کرنا پڑے گا۔ حال ہی میں فلوریڈا کی ایک کاؤنٹی والیسیا نے بھی ایک ایسا ہی قانون منظور کیا ہے۔
کئی ناقدین نے اس قانون سازی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ رقم کی ادائیگی سے بچنے کے لیے بہت سے لوگ امداد طلب نہیں کریں گے جس سے بعض صورتوں میں ان کی جان کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
خطرات سے گھری مہم جوئی صرف فضاؤں میں اڑان بھرنے اور سمندر کی تہہ میں اترنے تک ہی محدود نہیں ہے، بہت سے لوگ پہاڑوں کی بلند چوٹیوں کو سر کرنے کی خواہش میں اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کی کوشش میں اب تک 300 سے زیادہ کوہ پیما ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ پرخطر شوق بھی خاصا مہنگا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ایورسٹ کی چوٹی پر تصویر کھچوانے کی خواہش( اگر آپ پہنچ سکیں تو) لگ بھگ ایک لاکھ ڈالر میں پڑتی ہے۔ نیپال کی حکومت 11 ہزار ڈالر میں پرمٹ جاری کرتی ہے۔اس کے علاوہ سفر شروع کرنے سے پہلے طبی اور حفاظتی انشورنس حاصل کرنا بھی قانونی تقاضا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر امدادی کارروائیوں کا مالی بوجھ آپ کی انشورنس کمپنی اٹھائے۔
کچھ لوگ انشورنس کو اس مسئلے کے ایک مناسب حل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ حادثات اور آفات میں امدادی سرگرمیوں کے لیے مختص محدود فنڈز پر حق ناگہانی طور پر ان کی لپیٹ میں آنے والوں کا ہوتا ہے نہ کہ ان شوقیہ مہم جوؤں کا جو دیدہ دانستہ خطرات میں کود پڑتے ہیں۔
(اس مضمون کے لیے کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)