رسائی کے لنکس

آسٹریلیا میں 16 سال سے کم عمر افراد پر سوشل میڈیا کی پابندی کا قانون منظور


آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں 16 سال سے کم عمر اسٹوڈنٹس اپنے سمارٹ فونز پر سوشل میڈیا پر ہیںل۔ 28 نومبر 2024
آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں 16 سال سے کم عمر اسٹوڈنٹس اپنے سمارٹ فونز پر سوشل میڈیا پر ہیںل۔ 28 نومبر 2024
  • آسٹریلیا کی سینیٹ نے قانون سازی کے ذریعے 16 سال سے کم عمر افراد کی سوشل میڈیا تک رسائی روک دی ہے۔
  • سوشل میڈیا کمینیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ 12 ماہ میں ایسا نظام وضع کریں جو کم عمر نوجوانوں کو اپنے اکاؤنٹس بنانے سے روک دے۔
  • سوشل میڈیا کمپنیوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون مبہم اور غیر واضح ہے، جس سے مسائل پیدا ہوں گے۔
  • نوجوانوں کا کہنا ہے کہ وہ پابندی کے باوجود سوشل میڈیا تک رسائی کے راستے ڈھونڈ لیں گے۔
  • حزب مخالف کا کہنا ہے کہ اس قانون کا اصل مقصد اگلے سال کے شروع میں ہونے والے انتخابات میں والدین کی حمایت حاصل کرنا ہے۔
  • چین نے 2021 میں 14 سال سے کم عمر نوجوانوں کے لیے سوشل میڈیا پر دن میں 40 منٹ سے زیادہ رہنے پر پابندی لگا دی تھی۔

آسڑیلیا کے قانون سازوں نے جمعرات کے روز ایک تاریخی قانون کی منظور دی جس کے تحت 16 سال سے کم عمر افراد پر ٹک ٹاک، فیس بک، انسٹاگرام اور ایکس جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

سینیٹ میں 19 کے مقابلے میں 34 ووٹوں سے منظور ہونے والے اس قانون میں سوشل میڈیا کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ 16 سال سے کم عمر نوجوانوں کو اپنے اکاؤنٹس بنانے سے روکنے کے لیے مناسب اقدامات کریں۔

نئے قانون پر عمل درآمد میں ناکامی پر سوشل میڈیا کمپنیوں کو پانچ کروڑ آسٹریلیوی ڈالر تک کے جرمانے کا سامنا ہو سکتا ہے جو تین کروڑ 25 لاکھ امریکی ڈالر کے لگ بھگ رقم ہے۔

سوشل میڈیا کمپنیوں نے نئے قانون کو مبہم، مسائل پیدا کرنے والا اور جلد بازی میں بنایا گیا قانون قرار دیا ہے۔

سینیٹ سے منظوری کے بعد اب اس قانونی مسودے کو دوبارہ ایوان زیریں میں بھیجا جائے گا، جو پہلے ہی بدھ کے روز اسے منظور کر چکا ہے۔

آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں 16 سال سے کم عمر اسٹوڈنٹس اپنے سمارٹ فونز پر سوشل میڈیا پر ہیںل۔ 28 نومبر 2024
آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں 16 سال سے کم عمر اسٹوڈنٹس اپنے سمارٹ فونز پر سوشل میڈیا پر ہیںل۔ 28 نومبر 2024

آسڑیلیا میں قانون سازی کے طریقہ کار کے تحت قانونی مسودے کو سینیٹ سے منظوری ملنے کے بعد قانون بننے کے لیے ایک بار پھر ایوان زیریں کی حتمی منظوری درکار ہوتی ہے۔

سینیٹ میں بحث کے دوران تقریر کرتے ہوئے گرینز پارٹی کی سیاست دان سارہ ہینسن ینگ نے کہا کہ اس پابندی سے سوشل میڈیا کو نوجوانوں کے لیے زیادہ محفوظ نہیں بنایا جا سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تباہ کن ہے کہ نوجوانوں کو کمپیوٹر کے خطرناک الگورتھم (حسابی عمل جس پر کمپیوٹر کام کرتا ہے) کا نشہ لگ رہا ہے۔

سینٹر لیفٹ گروپ سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم انتھنی البانیز کی نظر اگلے سال کے شروع میں ہونے والے انتخابات پر ہے اور وہ بڑے جوش و خروش سے نئے قوانین کی حمایت کر رہے ہیں، کیونکہ آسٹریلیا کے والدین کم عمر نوجوانوں کے لیے سوشل میڈیا کی پابندیوں کے حامی ہیں۔

آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھنی البانیز کم عمر نوجوانوں کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال کے مخالف ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ اگلے سال ہونے والے انتخابات میں والدین کی حمایت حاصل کرنا ہے۔
آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھنی البانیز کم عمر نوجوانوں کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال کے مخالف ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ اگلے سال ہونے والے انتخابات میں والدین کی حمایت حاصل کرنا ہے۔

ووٹ جیتنے کی دوڑ نے البانیز کو سوشل میڈیا پر پابندی کی جانب متوجہ کیا ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کرنے والا 12 سالہ اینگس لیڈان اس قانون سازی پر برہم ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ نوجوانوں کے ہاتھوں سے فون لے لیے جائیں اور انہیں فٹ بال، کرکٹ ، ٹینس، نیٹ بال اور پیراکی کے تالابوں میں بھیج دیا جائے۔

لیڈان نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں اس کا استعمال جاری رکھنا چاہتا ہوں۔ اس کا نہ ہونا میرے لیے پریشان کن ہو گا ۔ میں چاہتا ہوں کہ میں گھر میں اپنے دوستوں سے بات کر سکوں۔

اس کا مزید کہنا تھا کہ میری طرح بہت سے نوجوان بھی سوشل میڈٰیا پر جانے کا طریقہ ڈھونڈ لیں گے۔ مجھے کوئی راستہ مل جائے گا اور اسی طرح میرے تمام دوست بھی کوئی راہ ڈھونڈ لیں گے۔

گیارہ سالہ ایلسی ارکنسٹال کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا میں اب بھی ان کے لیے جگہ موجود ہے خاص طور پر ان بچوں کے لیے جو پکوان بنانا اور آرٹ سیکھنا چاہتے ہیں۔

اس کا مزید کہنا تھا کہ بچوں کو ان ٹیکنیکس کو استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے کیونکہ وہ ہر چیز کتابوں سے نہیں سیکھ سکتے۔

سوشل میڈیا کے حوالے سے یہ دنیا کی سخت ترین پابندی ہے۔

آسٹریلیا میں کی جانے والی اس قانون سازی میں یہ تفصیلات موجود نہیں ہیں کہ ان قوانین کا نفاذ کیسے ہو گا۔ ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ طریقہ کار کی عدم موجودگی کے باعث یہ قانون محض کاغذ کا ایک ٹکڑا ہی ثابت ہو گا۔

آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں 16 سال سے کم عمر اسٹوڈنٹس اپنے سمارٹ فونز پر سوشل میڈیا پر ہیںل۔ 28 نومبر 2024
آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں 16 سال سے کم عمر اسٹوڈنٹس اپنے سمارٹ فونز پر سوشل میڈیا پر ہیںل۔ 28 نومبر 2024

اس قانون کی تفصیلات طے کرنے اور اس کے نفاذ پر عمل درآمد کے لیے ریگولیٹرز کو کم از کم 12 ماہ لگیں گے۔

امکان یہ ہے کہ کچھ کمپنیوں کو استثنیٰ مل جائے گا، مثال کے طور پر واٹس ایپ اور یوٹیوب وغیرہ جن کی ٹین ایجرز کو اسکول کے کام اور دیگر سرگرمیوں میں ضرورت پڑتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا میں ہونے والی اس قانون سازی پر دیگر ممالک بھی گہری نظر رکھیں گے اور اس کے نتائج کی روشنی میں وہ اپنے ہاں بھی اس طرح کی قانون سازی پر غور کر سکتے ہیں۔

آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں 16 سال سے کم عمر اسٹوڈنٹس اپنے سمارٹ فونز پر سوشل میڈیا پر ہیںل۔ 28 نومبر 2024
آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں 16 سال سے کم عمر اسٹوڈنٹس اپنے سمارٹ فونز پر سوشل میڈیا پر ہیںل۔ 28 نومبر 2024

اس سے قبل بھی کئی ملکوں میں بچوں کو سوشل میڈیا سے دور رکھنے کے لیے آوازیں اٹھتی رہی ہیں اور اسپین سے لے کر فلوریڈا تک قانون ساز کم عمر نوجوانوں کے لیے سوشل میڈیا کی پابندی کی تجاویز پیش کر چکے ہیں، تاہم چین کے سوا کسی بھی دوسری جگہ پابندیوں کا نفاذ نہیں کیا گیا۔

چین نے 2021 میں سوشل میڈیا تک کم عمر نوجوانوں کی رسائی محدود کر دی تھی اور 14 سے کم عمر افراد کو ٹک ٹاک کے چینی ورژن ڈوین پر دن میں 40 منٹ سے زیادہ رہنے کی اجازت نہیں تھی۔ اسی طرح چین میں بچوں کے لیے انٹرنیٹ پر ویڈیو گیمز کھیلنے کے وقت کو بھی محدود کیا گیا ہے۔

(اس رپورٹ کی تفصیلات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG