مائیکل براؤن کے اہل خانہ کے وکلاٴنے بتایا ہے کہ لاش کے ابتدائی معائنے سے پتا چلتا ہے کہ یہ غیر مسلح نوجوان خود کو پولیس کے حوالے کرنے کی کوشش میں تھا، جب گذشتہ ہفتے امریکہ کی مرکزی ریاست، مِزوری میں ایک سفید فام پولیس اہل کار نے اُسے گولی مار کر شدید زخمی کردیا تھا۔
اہل خانہ نے لاش کے آزادانہ معائنے کی التجا کی تھی۔ معائنے سے معلوم ہوا ہے کہ 9 اگست کو، 18 برس کے نوجوان کو کُل چھ گولیاں لگیں، جِن میں سے دو گولیاں اُن کے سر پر لگیں۔
پیر کے روز فرگوسن کے قصبے میں ہونے والی ایک اخباری کانفرنس میں، خاندان کے وکیل، بینجامن کِرمپ نے بتایا کہ امریکی محکمہٴانصاف سے پہلے، براؤن کے خاندان نے لاش کے معائنے کی درخواست کی تھی۔
بینجامن کِرمپ کے بقول، ’وہ نہیں چاہتے تھے کہ اُنھیں پوسٹ مارٹم کے معاملے میں سینٹ لوئی سے تعلق رکھنے والے قانون کے نفاذ سے وابستہ اداروں پر انحصار کرنا پڑے۔ یہ وہی لوگ ہیں، جن کے بارے میں وہ محسوس کرتے ہیں کہ اُنھوں نے ہی دن دہاڑے اُن کے بیٹے کو مارا تھا‘۔
وکلا اور دو طبی ماہرین نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ سر میں لگنے والی گولیاں، فوت ہونے سے پہلے دیے گئے آخری بیان میں، براؤن کی اُس بات کو وزن ملتا ہے کہ پولیس اہل کار، ڈیرن ولسن نے جب اُنہیں گولیاں ماریں، وہ اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کرنا چاہتا تھا۔
براؤن خاندان کے ایک وکیل، ڈیرل پارکس نے پیر کے دِن مطالبہ کیا کہ ولسن کے خلاف مقدمہ دائر کیا جائے، جو اِن دِنوں اجرت پر انتظامی رخصت پر ہیں۔
ڈیرل پارکس کے بقول، ’ہم سمجھتے ہیں کہ اِن حقائق کی موجودگی میں، افسر کو گرفتار کیا جانا چاہئیے تھا‘۔
نوجوان کی 10 روز قبل ہونے والی ہلاکت کے نتیجے میں احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے ہیں، جن میں سے کچھ سنگین نوعیت کے تھے، جس کے بعد پیر کو علی الصبح فرگوسن میں نیشنل گارڈ کے فوجیوں کو تعینات کر دیا گیا۔
صورت حال پر بات چیت کے لیے، امریکی اٹارنی جنرل، ایرک ہولڈر پیر کے دِن صدر براک اوباما سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ امریکی محکمہٴانصاف اور مقامی حکام براؤن کی ہلاکت کی تفتیش کر رہے ہیں۔