واشنگٹن —
ابھی کوئیٹہ میں ہونے والے بم دھماکوں کا دکھ کم نہیں ہوا تھا کہ کراچی کے عباس ٹاون میں ہونے والے دھماکے نے ایک بار پھر ہر پاکستانی کو غم زدہ کردیا۔ معصوم جانوں کا خون کوئیٹہ میں بہے یا کراچی میں، اس کا درد دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والے پاکستانی کو محسوس ہوتا ہے۔
دو روز قبل، میری ملاقات ایسے ہی ایک پاکستانی سے ہوئی جو گزشتہ 15 سال سے اپنے خاندان سمیت امریکہ میں مقیم ہیں۔ گھر میں پاکستانی نیوز چینلز کے ذریعے پاکستان کے حوالے سے ہر معمولی سے معمولی خبر کی معلومات رکھتے ہیں۔ میرے ساتھ مختصر تعارف کے بعد کہنے لگے:
’’یہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ روز روز ہونے والے دھماکوں کی خبر سے میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ دہشت گردی نے ملک کے ہر کونے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اوپر سے فرق وارانہ تشدد میں بے انتہا اضافہ ہوگیا ہے۔ حکومت ہر شعبے میں ناکام ہو چکی ہے۔ آخر پاکستان کون بچائے گا؟‘‘
محترم کے ان سوالوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ لیکن، ان کی اس بے چینی نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ملک سے ہزاروں میل دور رہنے والے پاکستانی اس پریشانی کا شکار ہیں، تو ملک میں رہنے والے لوگوں پر کیا گزرتی ہو گی؟
اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب ان دہشت گردی کی کاروائیوں کے بعد سوشل نیٹ ورک پر لوگوں کی جانب سے درج کیے گئے لفظوں میں ڈھلے ان کے جذبات جاننے کا موقع ملا۔
دکھ، درد، خوف، بے یقینی، عدم تحفظ اور مایوسی جیسے تمام ہی جذبات نمایاں تھے۔
ان سب کے باوجود، اگر کوئی کمی تھی تو یگانگت اور بھائی چارے کی۔
شیعہ برادری کے قتل پر زیادہ تر شیعہ افراد کا احتجاج دیکھنے میں آیا۔ لیکن، کسی سنی گروپ یا مذہبی رہنما کی جانب سے اس قتل عام کے خلاف احتجاج سامنے نہیں آیا۔
ہمیں سوچنا ہوگا کہ پاکستان میں ہونے والی زیادتیوں پر پورا ملک احتجاج نہیں کرے گا تو ان کا ازالہ کیسے کیا جائے گا؟ ایک دوسرے کا دکھ درد محسوس کرنے، متحد ہو کرایک قوم کی صورت میں ڈھلنے کے لئے ہمیں اور کتنے دھماکوں کا انتظار کرنا ہو گا؟
آج اگر ہم ایک فرقے پر ہونے والے ظلم و زیادتی پر خاموشی اختیار کرلیں گے، تو فرقہ وارانہ دراڑیں گہری ہوتے ہوتے ایک خلیج کی شکل اختیار کر سکتی ہیں۔
ہمیں ایک دوسرے پر ہونے والے ظلم کا تماشہ دیکھنے کی بجائے ایک دوسرے کی ڈھال بننا ہوگا۔ شیعہ، سنی یا عیسائی بننے کے بجائے ایک پاکستانی کی حیثیت سے اپنے ہم وطنوں کے دکھ کا مداوا کرنا ہوگا۔ ملک بچانے کے لئے کوئی باہر سے نہیں آئے گا۔ بلکہ، اس ملک کو یہاں رہنے والے شہریوں کو ہی بچانا پڑے گا۔
on FaceBook اب وردہ بولے گی Follow
دو روز قبل، میری ملاقات ایسے ہی ایک پاکستانی سے ہوئی جو گزشتہ 15 سال سے اپنے خاندان سمیت امریکہ میں مقیم ہیں۔ گھر میں پاکستانی نیوز چینلز کے ذریعے پاکستان کے حوالے سے ہر معمولی سے معمولی خبر کی معلومات رکھتے ہیں۔ میرے ساتھ مختصر تعارف کے بعد کہنے لگے:
’’یہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ روز روز ہونے والے دھماکوں کی خبر سے میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ دہشت گردی نے ملک کے ہر کونے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اوپر سے فرق وارانہ تشدد میں بے انتہا اضافہ ہوگیا ہے۔ حکومت ہر شعبے میں ناکام ہو چکی ہے۔ آخر پاکستان کون بچائے گا؟‘‘
محترم کے ان سوالوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ لیکن، ان کی اس بے چینی نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ملک سے ہزاروں میل دور رہنے والے پاکستانی اس پریشانی کا شکار ہیں، تو ملک میں رہنے والے لوگوں پر کیا گزرتی ہو گی؟
اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب ان دہشت گردی کی کاروائیوں کے بعد سوشل نیٹ ورک پر لوگوں کی جانب سے درج کیے گئے لفظوں میں ڈھلے ان کے جذبات جاننے کا موقع ملا۔
دکھ، درد، خوف، بے یقینی، عدم تحفظ اور مایوسی جیسے تمام ہی جذبات نمایاں تھے۔
ان سب کے باوجود، اگر کوئی کمی تھی تو یگانگت اور بھائی چارے کی۔
شیعہ برادری کے قتل پر زیادہ تر شیعہ افراد کا احتجاج دیکھنے میں آیا۔ لیکن، کسی سنی گروپ یا مذہبی رہنما کی جانب سے اس قتل عام کے خلاف احتجاج سامنے نہیں آیا۔
ہمیں سوچنا ہوگا کہ پاکستان میں ہونے والی زیادتیوں پر پورا ملک احتجاج نہیں کرے گا تو ان کا ازالہ کیسے کیا جائے گا؟ ایک دوسرے کا دکھ درد محسوس کرنے، متحد ہو کرایک قوم کی صورت میں ڈھلنے کے لئے ہمیں اور کتنے دھماکوں کا انتظار کرنا ہو گا؟
آج اگر ہم ایک فرقے پر ہونے والے ظلم و زیادتی پر خاموشی اختیار کرلیں گے، تو فرقہ وارانہ دراڑیں گہری ہوتے ہوتے ایک خلیج کی شکل اختیار کر سکتی ہیں۔
ہمیں ایک دوسرے پر ہونے والے ظلم کا تماشہ دیکھنے کی بجائے ایک دوسرے کی ڈھال بننا ہوگا۔ شیعہ، سنی یا عیسائی بننے کے بجائے ایک پاکستانی کی حیثیت سے اپنے ہم وطنوں کے دکھ کا مداوا کرنا ہوگا۔ ملک بچانے کے لئے کوئی باہر سے نہیں آئے گا۔ بلکہ، اس ملک کو یہاں رہنے والے شہریوں کو ہی بچانا پڑے گا۔
on FaceBook اب وردہ بولے گی Follow