واشنگٹن —
بھارتی قیدی سربجیت سنگھ کی موت نے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں ایک بار پھر تناوٴ کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔
سربجیت سنگھ کو جاسوسی اور دہشت گردی کے الزامات ثابت ہونے پر1991ء میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ اس سزا کے خلاف کی جانے والی اپیلوں کو ہائی کورٹ اور سپریم کوورٹ آف پاکستان مسترد کر چکے تھے۔
بھارتی حکام کی جانب سے بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اس حادثے پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی حکام کی جانب سے سربجیت سنگھ کی سزا کے خلاف رحم کی اپیل پر سرد مہری پر شدید افسوس کا اظہار کیا اور سربجیت سنگھ کو قوم کا بہادر بیٹا قرار دیتے ہوئے، حملہ آوروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔
سربجیت سنگھ کو مناسب سیکیورٹی نہ دینے کے حوالے سے بھی پاکستانی حکام کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
سربجیت سنگھ کی موت جہاں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو ایک بار پھر نازک موڑ پر لے آئی ہے وہیں ماضی کی بہت سی یادیں بھی تازہ ہو گئی ہیں، جن میں سے کچھ زیادہ پرانی نہیں۔ حال ہی میں کشمیر سے تعلق رکھنے والے افضل گورو کی پھانسی کا واقعہ بھی سب کو یاد ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے افضل گورو کے خلاف ٹھوس شواہد نہ ہونے کے باوجود بھارتی عوام کی ’اجتماعی ضمیر‘ کو مطمئین کرنے کے نام پر اسے پھانسی کی سزا سنا دی۔ افضل گورو کی پھانسی پر نہ صرف ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے احتجاج کیا گیا بلکہ بھارت میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے کئی ایک گروپوں نے بھی اسے تنقید کا نشانہ بنایا، جبکہ اُس کی لاش کو ابھی تک اس کے خاندان کے حوالے نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب، ممبئی حملوں کے واحد ملزم اجمل قصاب کی پھانسی کا واقعہ بھی زیادہ پرانا نہیں۔
ممبئی حملوں کی تحقیقات کے لئے پاکستان کی جانب سے تعاون کی پیشکش کی گئی، لیکن بھارت ہمیشہ موقف اختیار کرتا رہا کہ پاکستان بھارت سے تعاون میں سنجیدہ نہیں ۔ جبکہ اجمل قصاب کی گرفتاری سے لے کر اس کی پھانسی تک پاکستان نے خود کو اجمل قصاب کی وکالت سے دور رکھا۔
اجمل قصاب کی سزا کے خلاف ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ اور آخر میں بھارتی صدر کو پیش کی گئی رحم کی اپیل کے دوران پاکستان کی جانب سے کسی قسم کا دباوٴ دیکھنے میں نہیں آیا۔ اور ہر موقع پر پاکستان نے بھارتی عدالتوں کے فیصلوں کا احترام کیا۔ اجمل قصاب کی پھانسی کے بعد پاکستان کی جانب سے نہ ہی اسے قوم کا بہادر بیٹا قرار دیا گیا اور نہ ہی اس کی لاش کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔
بھارت میں بھی کئی پاکستانی قیدی مختلف وجوہات کی بناٗ پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جبکہ بے گناہی ثابت ہونے یا سزا کی مدت ختم ہونے پر بھارتی جیلوں سے رہا کئے جانےوالے پاکستانی قیدی بھی ملک واپس لوٹنے ہیں تو ان میں سے زیادہ تر تشدد کی باعث اپنا ذہنی توازن کھو چکے ہوتے ہیں ۔
پاکستان اور بھارت اپنے ملک میں ہونے والے دہشت گردی میں ایک دوسرے کی حکومت کے ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے آئے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گرد قرار دئے جانے والے سربجیت کی موت پر بھارت کی جانب سے غیر معمولی ردعمل ان الزامات کو جواز پیش کر رہا ہے۔
سربجیت سنگھ پر قاتلانہ حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، لیکن ایک ذمہ دار ملک کی جانب سے ایک دہشت گرد کی موت پر جذباتی ردعمل دونوں ممالک کے درمیان بد اعتمادی کی فضا کو مزید فروغ دے گا۔
on FaceBook اب وردہ بولے گی Follow
سربجیت سنگھ کو جاسوسی اور دہشت گردی کے الزامات ثابت ہونے پر1991ء میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ اس سزا کے خلاف کی جانے والی اپیلوں کو ہائی کورٹ اور سپریم کوورٹ آف پاکستان مسترد کر چکے تھے۔
بھارتی حکام کی جانب سے بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اس حادثے پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی حکام کی جانب سے سربجیت سنگھ کی سزا کے خلاف رحم کی اپیل پر سرد مہری پر شدید افسوس کا اظہار کیا اور سربجیت سنگھ کو قوم کا بہادر بیٹا قرار دیتے ہوئے، حملہ آوروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔
سربجیت سنگھ کو مناسب سیکیورٹی نہ دینے کے حوالے سے بھی پاکستانی حکام کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
سربجیت سنگھ کی موت جہاں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو ایک بار پھر نازک موڑ پر لے آئی ہے وہیں ماضی کی بہت سی یادیں بھی تازہ ہو گئی ہیں، جن میں سے کچھ زیادہ پرانی نہیں۔ حال ہی میں کشمیر سے تعلق رکھنے والے افضل گورو کی پھانسی کا واقعہ بھی سب کو یاد ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے افضل گورو کے خلاف ٹھوس شواہد نہ ہونے کے باوجود بھارتی عوام کی ’اجتماعی ضمیر‘ کو مطمئین کرنے کے نام پر اسے پھانسی کی سزا سنا دی۔ افضل گورو کی پھانسی پر نہ صرف ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے احتجاج کیا گیا بلکہ بھارت میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے کئی ایک گروپوں نے بھی اسے تنقید کا نشانہ بنایا، جبکہ اُس کی لاش کو ابھی تک اس کے خاندان کے حوالے نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب، ممبئی حملوں کے واحد ملزم اجمل قصاب کی پھانسی کا واقعہ بھی زیادہ پرانا نہیں۔
ممبئی حملوں کی تحقیقات کے لئے پاکستان کی جانب سے تعاون کی پیشکش کی گئی، لیکن بھارت ہمیشہ موقف اختیار کرتا رہا کہ پاکستان بھارت سے تعاون میں سنجیدہ نہیں ۔ جبکہ اجمل قصاب کی گرفتاری سے لے کر اس کی پھانسی تک پاکستان نے خود کو اجمل قصاب کی وکالت سے دور رکھا۔
اجمل قصاب کی سزا کے خلاف ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ اور آخر میں بھارتی صدر کو پیش کی گئی رحم کی اپیل کے دوران پاکستان کی جانب سے کسی قسم کا دباوٴ دیکھنے میں نہیں آیا۔ اور ہر موقع پر پاکستان نے بھارتی عدالتوں کے فیصلوں کا احترام کیا۔ اجمل قصاب کی پھانسی کے بعد پاکستان کی جانب سے نہ ہی اسے قوم کا بہادر بیٹا قرار دیا گیا اور نہ ہی اس کی لاش کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔
بھارت میں بھی کئی پاکستانی قیدی مختلف وجوہات کی بناٗ پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جبکہ بے گناہی ثابت ہونے یا سزا کی مدت ختم ہونے پر بھارتی جیلوں سے رہا کئے جانےوالے پاکستانی قیدی بھی ملک واپس لوٹنے ہیں تو ان میں سے زیادہ تر تشدد کی باعث اپنا ذہنی توازن کھو چکے ہوتے ہیں ۔
پاکستان اور بھارت اپنے ملک میں ہونے والے دہشت گردی میں ایک دوسرے کی حکومت کے ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے آئے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گرد قرار دئے جانے والے سربجیت کی موت پر بھارت کی جانب سے غیر معمولی ردعمل ان الزامات کو جواز پیش کر رہا ہے۔
سربجیت سنگھ پر قاتلانہ حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، لیکن ایک ذمہ دار ملک کی جانب سے ایک دہشت گرد کی موت پر جذباتی ردعمل دونوں ممالک کے درمیان بد اعتمادی کی فضا کو مزید فروغ دے گا۔
on FaceBook اب وردہ بولے گی Follow