کراچی: پاکستان کے معاشی مرکز، کراچی کی شاہراہیں، بازار و مارکیٹ اہمیت کے حامل ہیں، وہیں شہر کے فٹ پاتھ بھی سینکڑوں افراد کو روزگار فراہم کرتے ہیں۔
شہر کراچی کا دل کہلانے والے صدر بازار کی فٹ پاتھوں پر بھی بیشتر افراد کو روزگار میسر آ رہا ہے۔ ریگل چوک کی ایک فٹ پاتھ پر بیٹھے بابا رمضان کے لئے بھی یہ فٹ پاتھ اس کا واحد ذریعہٴ معاش ہے۔
ادھیڑ عمر، بابا رمضان پچھلے 45 برسوں سے اس فٹ پاتھ پر طوطا فال نکالنے کا کام کر رہا ہے اور 20 روپے میں لوگوں کی قسمت کا حال اور ان کے مسائل کا حل فال نکال کر بتاتا ہے۔
اس فٹ پاتھ پر دن بھر کئی افراد بابا رمضان کے پاس اپنی قسمت کا حال جاننے اور بگڑے ہوئے کام بنانے کا سوال لے کر بابا رمضان کے پاس آتے ہیں۔
ریگل چوک پر پچھلے 45 برسوں سے فٹ پاتھ پر طوطا فال نکالنے والے بابا رمضان کا کہنا ہے کہ "بھٹو اور ضیا کے زمانے میں کراچی میرے لئے لندن تھا۔‘‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’’صدر کے اس علاقے کی فٹ پاتھ لوگوں بھری نظر آتی تھی"۔
اپنے بارے میں بابا رمضان نے ’وائس آف امریکہ‘ کی نمائندہ کو انٹرویو میں بتایا کہ "1971 کی جنگ اُن کی اس مزدوری کا پہلا دن تھا، جب وہ کراچی کی اس فٹ پاتھ پر فال نکالنے بیٹھا، جو اب اس کا ایک روزگار ہے جو برسوں سے چلا آ رہا ہے‘‘۔
بابا رمضان اپنے اس کام کے بارے میں مکمل مطمئن اور پُر یقین ہے۔ شاید یہی یقین اسکی کامیابی کا ضامن ہے۔ بابا رمضان کے پاس دن بھر کئی لوگ اپنی قسمت کا حال جاننے اور طوطا فال نکلوانے اس فٹ پاتھ کا رخ کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ "جو لوگ گھر سے پریشان ہیں یا کاروبار میں یا گھریلو رنجشنوں کے معاملات کو فال کی مدد سے دیکھنے آتے ہیں کہ اب قسمت کا کیا ہونے والا ہے؟"
گویا دکھ، تکلیف ان سب کا حل انھیں بابا رمضان کے طوطے کی فال میں نظر آتا ہے۔ "لوگ اپنا سوال لےکر یہاں آتے ہیں۔ کسی کی شادی بیاہ، کاروبار، بچوں کے مسائل ہوں یا کوئی بھی دکھ تکلیف۔ ایسے لوگ بھی آتے ہیں جن کا مسئلہ ہو یا کوئی شوقیہ معاملہ، ان کے دل کو فال نکلوا کر ہی سکون ملتا ہے۔۔۔ ان لوگوں میں چار لوگ نئے تو چھ لوگ پرانے ہوتے ہیں جو مسلسل آ رہے ہوتے ہیں"۔
رمضان کا کہنا ہے کہ "جب ان کا کوئی بگڑا ہوا کام بن گیا لوگوں نے مجھے مٹھائیاں تک دیں کہ بابا میرا مسئلہ حل ہوگیا"۔
ایک سوال پر کہ بابا آپ نے کوئی اور پیشہ کیوں نہیں چنا؟ وہ کہتے ہیں کہ میں بہت سے کام جانتا ہوں جسمیں درزی اور کپڑے کا کام شامل ہے۔ میں نے کئی کام کرنے کا سوچا۔ مگر سمجھ نہیں آتا۔ صرف یہ واحد کام فال نکالنا ہے جو سمجھ آتا ہے"۔
رمضان اپنے طوطے کی مدد سے کاغذ کے ٹکڑوں پر لکھی تحریر پڑھ کر سناتا ہے۔ بابا رمضان کے بقول، ’’ان فالوں میں لوگوں کی قسمت کا حال چھپا ہے‘‘۔
بابا رمضان کی کہانی اس کی زبانی، درج ذیل ویڈیو رپورٹ میں: