سہیل انجم
سپریم کورٹ نے اجودھیا کے بابری مسجد رام مندر تنازعہ کو ”حساس“ اور ”جذباتی“ قرار دیتے ہوئے مشورہ دیا ہے کہ اسے عدالت کے باہر مذاکرات کی مدد سے قابل قبول انداز میں حل کیا جائے۔
یہ مشورہ بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی کی اس اپیل پر آیا ہے جس میں اجودھیا تنازعہ پر فوری سماعت کی درخواست کی گئی تھی۔
عدالت نے متعلقہ فریقوں سے کہا کہ وہ ایک ساتھ بیٹھیں اور اتفاق رائے پر پہنچیں۔ اس نے سوامی کو ہدایت دی کہ وہ تمام فریقوں سے مشورہ کریں اور جو بھی فیصلہ ہو وہ 31 مارچ کو عدالت کو بتائیں۔
یہ مشورہ چیف جسٹس جے ایس کھیہر کی سربراہی میں قائم بنچ نے دیا ہے۔ جسٹس کھیہر نے یہاں تک کہا کہ اگر متعلقہ فریق راضی ہوں تو اس متنازعہ معاملے میں ثالث بننے کے لیے تیار ہیں۔
بعض سیاسی جماعتوں بالخصوص بی جے پی لیڈروں نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا ہے اور اس امید کا اظہار کیا ہے کہ بات چیت سے کوئی راستہ نکلے گا اور اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر ہوگی۔
کانگریس کے بعض لیڈروں نے کہا کہ یہ کوئی نیا مشورہ نہیں ہے پہلے بھی بات چیت ہوتی رہی ہے۔ بائیں بازو نے کہا کہ بات چیت کی ناکامی کے بعد ہی معاملہ عدالت میں پہنچا۔
اس تنازعہ کے متعلقہ فریقوں نے بھی یہ مشورہ ماننے سے انکار کر دیا۔ ایک فریق رام للا کی وکیل رنجنا اگنی ہوتری نے کہا کہ مذاکرات کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ صرف عدالتی فیصلہ قابل قبول ہوگا خواہ وہ کسی کے بھی حق میں آئے۔ یا پھر آرڈیننس سے اس کو حل کیا جائے۔
بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر اور وکیل ظفریاب جیلانی نے بھی مذاکرات کو خارج از امکان قرار دیا اور کہا کہ عدالتی فیصلہ تسلیم کیا جائے گا۔ ایکشن کمیٹی کے جوائنٹ کنوینر اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ چونکہ مشورہ عدالت عظمی نے دیا ہے اس لیے اس کا خیر مقدم کر تے ہیں ، لیکن بات چیت کا دور ختم ہو چکا ہے۔
تاہم انھوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر بات چیت ہو تو ٹھوس بنیادوں پر اور ثبوت و شواہد کی روشنی میں ہو۔ اگر کوئی فریق پہلے سے یہ طے کر لے کہ وہاں رام مندر تھا اور ہم اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے تو پھر بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ یا تو بات چیت سے مسئلہ حل ہو یا پھر عدالت سے۔
یاد رہے کہ دسمبر 1992 میں وشو ہندو پریشد اور بی جے پی کے ہزاروں کارکنوں نے اجودھیا کی بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔ 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنؤ بنچ نے متنازعہ اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ رام للا کو جن کی مورتی متنازعہ مقام پر نصب ہے، دوسرا حصہ ہندو فریق نرموہی اکھاڑہ کو اور تیسرا حصہ سنی سینٹرل وقف بورڈ کو دے دیا تھا۔ تاہم کسی بھی فریق نے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا۔