جمعے کے روز ہونے والے تشدد پر مبنی احتجاجی مظاہرے جن میں گولیوں اور آنسو گیس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مظاہرین نے بغداد کے سخت پہرے والے انٹرنیشنل زون پر دھاوا بول دیا تھا، ہفتے کو صورت حال میں کچھ قدر بہتر آئی ہے؛ تاہم تنائو کی فضا اب بھی باقی ہے۔
علی الصبح ہیلی کاپٹروں کے شور سے شہر کے لوگ جاگ اٹھے۔ یہ ہیلی کاپٹر بغداد کے انتہائی پہرے والے علاقے کی جانب اور وہاں سے پرواز بھر رہے تھے، جہاں عراق کی حکومت کی عمارات واقع ہیں۔
ایسے میں جب جمعے کی شام مظاہرین پر گولیوں اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں وہ وہاں سے چلے گئے، لیکن کچھ لوگوں نےانٹرنیشنل زون سے اپنے زخمی ساتھیوں کو ہٹاتے ہوئے حکومت مخالف نعرے لگائے اور اس بات کا عہد کیا کہ وہ اسلحے کے ساتھ پھر واپس آئیں گے۔
مظاہرین میں کافی تعداد شیعہ عالم دین، مقتدیٰ الصدر کے حامیوں کی تھی۔ متعدد عراقی رہنمائوں کی طرح، اُن کی اپنی ایک ملیشیا ہے، جو 'پیس برگیڈس' کے نام سے جانی جاتی ہے۔
الصدر حکومت کے خلاف تحریک کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، جسے عوامی ''انقلاب'' کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔
سکیورٹی افواج نے ہفتے کو انٹرنیشنل زون کی جانب جانے والے تمام راستوں کو بند کردیا اور شہر کی سڑکوں پر خصوصی افواج کی چوکیوں کی تعداد بڑھا دی ہے۔
بین الاقوامی زون کے اندر، پارلیمان کی عمارت کے گرد 40 ہموی گاڑیوں کی ایک قطار کھڑی کردی گئی ہے، جب کہ کلیدی مقامات پر سکیورٹی فورسز کو تعینات کر دیا گیا ہے۔
بغداد کے کچھ مکینوں نے خوراک، پانی اور ادویات کا ذخیرہ اکٹھا کرنا شروع کر دیا ہے، اس خوف کے باعث کہ صورت حال بگڑ سکتی ہے، مظاہرین پھر سے احتجاج کر سکتے ہیں اور شہر میں لوٹ مار کا بازار گرم ہوسکتا ہے۔
جمعے کے روز ہونے والے احتجاجی مظاہرے سے قبل بغداد میں بم حملوں کا ایک سلسلہ جاری رہا، جس میں 100 سے زائد افراد ہلاک جب کہ سینکڑوں زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تعداد شہر کی غریب آبادی پر مبنی شیعہ حضرات کی ہے۔
عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے احتجاج کی مذمت کی ہے، جس دوران مظاہرین کئی سرکاری عمارات میں داخل ہوئے، جس میں وزیر اعظم کا دفتر بھی شامل ہے۔
بقول اُن کے، ''سرکاری اداروں پر دھاوا بولنا اور کار سرکار میں مداخلت، املاک کی توڑ پھوڑ، کسی صورت قابل قبول نہیں۔ اسے برداشت نہیں کیا جائے گا''۔
تاہم، عبادی کی قیادت کو کمزور خیال کیا جاتا ہے۔ تین ہفتے قبل انٹرنیشنل زون پر دھاوا بولنے کی کوشش ہوئی تھی، جس میں پارلیمان کی عمارت پر قبضہ شامل تھا، اُس پر اُن کی جانب سے مذمت کے اظہار کا بظاہر کوئی اثر نہیں ہوا۔
وزیر اعظم کی جانب سے حکومت کی از سر نو تشکیل کی کوششیں اور تنائو میں کمی لانے کی کوششیں ناکام رہی ہیں، اور وہ ابھی تک اقتدار میں حصہ داری کی مختلف سیاسی دھڑوں کی کوششوں پر حاوی پانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
ادھر، اقوام متحدہ کے ایلچی برائے عراق نے کشیدگی کو کم کرنے کے اقدام پر زور دیا ہے۔
جان کوبیس نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ''عراق میں امن و امان قائم کرنا اہمیت کا حامل معاملہ ہے، تاکہ کسی سیاسی حل کی جانب بڑھا جاسکے''۔