بحرین کے وزیرِ اعظم خلیفہ بِن سلمان الخلیفہ ہفتے کے روز سب سے پہلے ووٹ ڈالنے والوں میں شامل تھے۔ میڈیا کے نمائندوں کے ایک ہجوم کے سامنے ووٹ ڈالنے کے بعد، انھوں نے ملک میں منتخب نمائندگی کے عزم کا اعادہ کیا۔ تا ہم، ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے جس پر سنّی مسلمانوں کا غلبہ ہے، بڑے پیمانے پر حکومت کے مخالف افراد کی جو گرفتاریاں کی ہیں، ان سے پورے جمہوری عمل کو نقصان پہنچا ہے ۔
اگست میں 23 شیعہ کارکنوں کو دہشت گردی اور حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزامات میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد سے اب تک، حزب اختلاف کے 200حامیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ دوران ِ حراست ان کے ساتھ خراب سلوک کیا گیا بلکہ انہیں اذیتیں بھی دی گئیں۔بحرین کے سنٹر فار ہیومن رائٹس کے صدر نبیل رجب کے مطابق، ان گرفتاریوں کا اصل مقصد یہ ہے کہ شیعوں کو پارلیمینٹ میں اکثریت حاصل نہ کرنے دی جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس اقدام سے، بحرین کے بہت سے لوگوں کا اس انتخاب سے اعتبار اٹھ گیا ہے ۔’’حکومت نے جو کارروائی کی ہے اور جو گرفتاریاں کی ہیں، اس سے پوری صورتِ حال متاثر ہوگی اور میرے خیال میں انتخاب میں ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد توقع سے کہیں کم ہوگی۔‘‘
یونیورسٹی آف Exeter میں بین الاقوامی تعلقات اور مشرق وسطیٰ کی سیاست کے پروفیسر، Gerd Nonneman کہتے ہیں کہ یہ پیشگوئی کرنا مشکل ہے کہ ووٹ ڈالنے والوں کی کُل تعداد کتنی ہوگی، لیکن اگر شیعہ بہت کم تعداد میں ووٹ ڈالنے آئے تو یہ حکومت کے لیے نقصان دہ ہو گا۔’’اگر انتخابات میں شرکت کا فقدان ہوا، تو پرانی کشیدگیاں پھر ابھر کر سامنے آجائیں گی جب کہ سیاسی آزادی دینے کے پروگرام کا مقصد ہی یہ تھا کہ کشیدگیاں ختم کی جائیں۔ اس کے علاوہ، ماضی میں حزبِ ِ اختلاف فرقوں کی تفریق سے آزاد تھی لیکن اب اس میں فرقہ وارانہ خیالات کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے اور اس کی ایک وجہ حکومت کی پالیسی ہے ۔‘‘
گذشتہ عشرے سے، مغرب کی نظر میں بحرین عرب دنیا میں ابھرتی ہوئی جمہوریتوں کی مثال بن کر سامنے آیا ہے۔1999 میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد، بادشاہ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ نے ملک میں دور رس سیاسی اصلاحات کیں۔ نئی پارلیمنٹ کے قیام کے علاوہ، جو ا ب بھی کم و بیش بادشاہ کے کنٹرول میں ہے، انھوں نے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کردیا اور عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا۔ پارلیمنٹ کے پاس پالیسی سازی کے اختیارات محدود ہیں کیوں کہ تمام قوانین ایوان بالا سے منظور ہونے ضروری ہیں جس کے ارکان کا تقرر بادشاہ کرتے ہیں۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ بحرین میں کی جانے والی اصلاحات وہاں انسانی حقوق کے تاریخی دور کے مترادف ہیں۔ تا ہم شیعہ مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ انہیں ملک میں دوسرے درجے کے شہری سمجھا جاتا ہے ۔ آج کل بحرین کی ستّر فیصد آبادی شیعہ ہے۔ شیعہ کہتے ہیں کہ انہیں رہائش، صحت اور تعلیم میں برابر کا حصہ نہیں دیا جاتا اور بیشتر سرکاری محکمے انہیں ملازم نہیں رکھتے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ شیعوں کے نمائندوں نے سنّی لیڈروں پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ شیعوں کی اکثریت کا زور توڑنے کے لیے ، غیر ملکی سنیوں کو بحرینی پاسپورٹ جاری کیے جا رہے ہیں۔ حکومت نے اس الزام سے انکار کیا ہے ۔
بیرونی طاقتیں بحرین کے داخلی مسائل پر کڑی نظر رکھتی ہیں۔ ایک بڑی تشویش یہ ہے کہ ایران جو شیعہ اکثریت والی آبادی کا ملک ہے، جزیرہ نمائے عرب میں اپنے قدم جمانے کے لیے اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتا ہے ۔
ماہرین کہتے ہیں کہ چونکہ امریکہ کے پانچویں بحری بیڑے کا اڈا بحرین میں ہے، اس لیے اس ملک سے امریکہ کا اہم مفاد وابستہ ہے ۔ تا ہم، امریکی عہدے داروں نے بحرین میں تازہ ترین بے چینی پر تبصرہ کرنے میں محتاط رویہ اختیار کیا ہے ۔
بحرین کی حکومت کا اصرار ہے کہ اس کی حالیہ کارروائی دہشت گردوں کے خلاف تھی جو ملک میں حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کر رہے تھے۔ پارلیمانی انتخابات سے اس کارروائی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ حکومت نے اس خیال کو بھی مسترد کر دیا ہے کہ پارلیمانی انتخابات میں ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد کم ہوگی۔
بحرین کی آبادی تیرہ لاکھ ہے اور اس میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد تقریبا تین لاکھ اٹھارہ ہزار ہے ۔