بحرین کےشاہ نے خلیج کی اِس چھوٹی ریاست میں حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں کوکچلنے کےلیےنافذ کی گئی ہنگامی حالت کو جلد اٹھانے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔
بحرین کے سرکاری میڈیا نے اتوار کو بتایا ہے کہ بادشاہ حماد الخلیفہ یکم جون سے ملک میں ایمرجنسی ہٹالیں گے، جو اصل مدت سے دو ہفتے قبل اٹھالی جائے گی۔
بحرین نے مارچ کے وسط میں مارشل لا لگا دیا تھا اور خصوصاً سنی حکومتوں پر مشتمل ہمسایہ ممالک کی فوجوں کو دعوت دی تھی تاکہ زیادہ تر شیعہ احتجاجی مظاہرین کی بغاوت کو قابو میں لا یا جاسکے۔
یہ اعلان اُس وقت کیا گیا ہے جب کم از کم 14یا 21حکومت مخالف راہنما اور سرگرم سیاسی کارکن بادشاہت کو اقتدار سے ہٹانے کی سازش کے الزامات پر ایک خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ احتجاجی مظاہروں کے بعد حکومت نے سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا ہے۔
دریں اثنا، ایرانی وزیرِ خارجہ علی اکبر صالحے اتوار کے روز متحدہ عرب امارات کے اعلیٰ عہدے داروں کے ساتھ ملاقات کرنے والے ہیں، ایسے میں جب بحرین میں شورش برپہ ہونے کے باعث ایران اور خلیجی ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایران، جس کی اکثریت شیعہ آبادی پر مشتمل ہے، بحرین کی سنی قیادت کی طرف سے بغاوت کو کچلنے کی کوششوں کی سختی سے تنقید کی ہے۔
اتوار کو صالحے کے ساتھ ہونے والی بات چیت کی تفاصیل جاری نہیں کی گئیں۔
گذشتہ ہفتے، ایرانی وزیرِ خارجہ نے قطر اور اومان کا دورہ کیا جو کہ چھ رکنی گلف کوآپریشن کونسل (جی سی سی) کے رکن ہیں، جس میں متحدہ عرب امارات، بحرین، سعودی عرب اور کویت بھی شامل ہیں۔
جی سی سی کے عہدے دار منگل کو سعودی عرب میں بات چیت کریں گے۔ اپنے گذشتہ اجلاس میں گروپ نے ایران کی سخت مذمت کی تھی۔
بحرینی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ہنگامہ آرائی میں 24افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔