اسلام آباد —
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ایک بیان میں کہا کہ گزشتہ ہفتے خضدار سے ملنے والی 15 افراد کی لاشوں کے واقعے کے بارے میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق ان افراد کو ایک ماہ قبل ہلاک کیا گیا اور ان کی لاشوں کو جنگلی جانوروں نے بری طرح نوچا ہوا تھا۔
تنظیم نے وفاقی وزیرداخلہ اور صوبائی وزیراعلیٰ کے نام لکھے گئے خطوط میں مطالبہ کیا کہ واقعے کی فوری تحقیقات کی جائیں اور اصل حقائق کو منظر عام پر لایا جائے۔
بلوچستان میں حکومتی عہدیداروں کے مطابق خضدار کے علاقے توتک سے 13 لاشیں ملی تھیں لیکن ان میں سے دو ہی اس قابل تھیں کہ انھیں اٹھایا جا سکے۔
حکام کا کہنا تھا کہ ان لاشوں پر چونا پھینکا گیا تھا تاکہ ان کی شناخت نہ ہوسکے اور ان کے بقول لاشوں کی اطلاع مقامی چرواہوں نے دی تھی۔
ایچ آر سی پی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں تشدد کی لہر، ہدف بنا کر قتل کرنے اور جبری گمشدگیوں اور پھر لاشوں کو ٹھکانوں لگانے کے واقعات کے تناظر میں اس تازہ واقعے کی تحقیقات اور زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔
تنظیم کی سربراہ زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ تازہ واقعہ انتہائی تشویشناک ہے۔
’’ اس طرح سے اجتماعی قبروں کا ملنا بہت بڑا واقعہ ہے، جب تک ڈی این اے ٹیسٹ نہیں ہوگا تو پتا نہیں چلے گا کہ یہ کن کی لاشیں ہیں، مگر جو خاندان ہیں جن کے لوگ اٹھائے گئے انھیں تو یہی فکر ہے کہ جو لوگ ابھی تک لاپتہ ہیں وہ ان میں نہ ہوں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ بلوچستان میں تشدد، لاقانونیت اور ہلاکتوں کے مسئلے کا حل تلاش کریں۔ تنظیم نے باضابطہ قانونی کارروائی اور انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنانے اور مسائل کے سیاسی ذرائع سے حل پر زور دیا۔
صوبائی وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے اس بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ واقعے کی تحقیقات کی جارہی ہیں لیکن تاحال اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
’’حکومت بلوچستان کا یہ اصولی فیصلہ ہے کہ اس کیس کو میرٹ پر دیکھیں گے اور جس نے بھی یہ گھناؤنا ظلم کیا ہے اس کو کم ازکم بے نقاب ضرور کریں گے اور سزا بھی دلوانے کی کوشش کریں گے، حکومت نے اس سلسلے میں فیصلہ کیا ہے کہ ہم ڈی این اے ٹیسٹ بھی کرائیں گے تاکہ جب بھی کوئی لواحقین آئیں تو اس سے موازنہ ہو سکے۔‘‘
صوبائی حکومت میں شامل عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ گزشتہ سال ان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے صوبے میں ٹارگٹڈ کلنگ اور دیگر منظم جرائم سمیت مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کے واقعات میں خاطر خواہ کمی آئی ہے اور حکومت ایسے واقعات کے تدارک کے لیے بھرپور اور موثر اقدامات کر رہی ہے۔
بلوچستان میں بعض علیحدگی پسند تنظیموں کے علاوہ بلوچ عسکری تنظیمیں بھی سرگرم ہیں اور حکام یہاں پیش آنے والے اکثر پرتشدد واقعات پر انھیں مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ لیکن بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ صوبے میں جبری گمشدگیوں اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کی ذمہ دار مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز ہیں۔
فرنٹیئرکور کے حکام ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
تنظیم نے وفاقی وزیرداخلہ اور صوبائی وزیراعلیٰ کے نام لکھے گئے خطوط میں مطالبہ کیا کہ واقعے کی فوری تحقیقات کی جائیں اور اصل حقائق کو منظر عام پر لایا جائے۔
بلوچستان میں حکومتی عہدیداروں کے مطابق خضدار کے علاقے توتک سے 13 لاشیں ملی تھیں لیکن ان میں سے دو ہی اس قابل تھیں کہ انھیں اٹھایا جا سکے۔
حکام کا کہنا تھا کہ ان لاشوں پر چونا پھینکا گیا تھا تاکہ ان کی شناخت نہ ہوسکے اور ان کے بقول لاشوں کی اطلاع مقامی چرواہوں نے دی تھی۔
ایچ آر سی پی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں تشدد کی لہر، ہدف بنا کر قتل کرنے اور جبری گمشدگیوں اور پھر لاشوں کو ٹھکانوں لگانے کے واقعات کے تناظر میں اس تازہ واقعے کی تحقیقات اور زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔
تنظیم کی سربراہ زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ تازہ واقعہ انتہائی تشویشناک ہے۔
’’ اس طرح سے اجتماعی قبروں کا ملنا بہت بڑا واقعہ ہے، جب تک ڈی این اے ٹیسٹ نہیں ہوگا تو پتا نہیں چلے گا کہ یہ کن کی لاشیں ہیں، مگر جو خاندان ہیں جن کے لوگ اٹھائے گئے انھیں تو یہی فکر ہے کہ جو لوگ ابھی تک لاپتہ ہیں وہ ان میں نہ ہوں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ بلوچستان میں تشدد، لاقانونیت اور ہلاکتوں کے مسئلے کا حل تلاش کریں۔ تنظیم نے باضابطہ قانونی کارروائی اور انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنانے اور مسائل کے سیاسی ذرائع سے حل پر زور دیا۔
صوبائی وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے اس بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ واقعے کی تحقیقات کی جارہی ہیں لیکن تاحال اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
’’حکومت بلوچستان کا یہ اصولی فیصلہ ہے کہ اس کیس کو میرٹ پر دیکھیں گے اور جس نے بھی یہ گھناؤنا ظلم کیا ہے اس کو کم ازکم بے نقاب ضرور کریں گے اور سزا بھی دلوانے کی کوشش کریں گے، حکومت نے اس سلسلے میں فیصلہ کیا ہے کہ ہم ڈی این اے ٹیسٹ بھی کرائیں گے تاکہ جب بھی کوئی لواحقین آئیں تو اس سے موازنہ ہو سکے۔‘‘
صوبائی حکومت میں شامل عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ گزشتہ سال ان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے صوبے میں ٹارگٹڈ کلنگ اور دیگر منظم جرائم سمیت مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کے واقعات میں خاطر خواہ کمی آئی ہے اور حکومت ایسے واقعات کے تدارک کے لیے بھرپور اور موثر اقدامات کر رہی ہے۔
بلوچستان میں بعض علیحدگی پسند تنظیموں کے علاوہ بلوچ عسکری تنظیمیں بھی سرگرم ہیں اور حکام یہاں پیش آنے والے اکثر پرتشدد واقعات پر انھیں مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ لیکن بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ صوبے میں جبری گمشدگیوں اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کی ذمہ دار مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز ہیں۔
فرنٹیئرکور کے حکام ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔