بلوچستان کے ضلع لورالائی میں کوئلے کی ایک کان میں دھماکے سے تین کان کن ہلاک اور دو زخمی ہوگئے ہیں۔
محکمۂ مائنز کے ایک مقامی افسر محمد عاطف نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ جمعرات کی صبح پانچ کان کن ضلع لورالائی کے علاقے چماؤلنگ میں ایک کان سے کوئلہ نکالنے کے لیے سیکڑوں فٹ زیرِ زمین گئے تھے جہاں دھماکہ ہونے سے کان کا ایک بڑا حصہ بیٹھ گیا اور تین کان کن ٹنوں مٹی کے نیچے دب گئے۔
انہوں نے بتایا کہ دو مزدور کان کے کسی دوسرے حصے میں کام کر رہے تھے جو دھماکے میں زخمی ہوئے ہیں۔
امدادی کارکنوں نے فوری طور پر دونوں زخمی کان کنوں کو کان سے نکال کر اسپتال منتقل کردیا ہے جہاں اُن کی حالت خطرے سے باہر بتائی گئی ہے۔
محمد عاطف کے بقول ہلاک ہونے والے تینوں کان کنوں کی لاشوں کو بھی نکال کر لواحقین کے سپرد کردیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ امدادی کام مکمل ہونے کے بعد کان سیل کردی گئی ہے اور مالکان کے خلاف ناقص انتظامات کے الزام میں مقدمہ درج کیا جائے گا۔
کان کن رہنما عبدالکریم میر دادخیل نے وی او اے کو بتایا ہے کہ کان میں دھماکہ گیس بھرنے کی وجہ سے ہوا۔
انہوں نے کہا کہ صوبے کے مختلف اضلاع میں قائم کانوں میں تازہ ہوا کے اندر آنے کے انتظامات نہیں ہوتے جس کی وجہ سے کان کے اندر گیس بھر جاتی ہے۔
عبدالکریم میر دادخیل نے بتایا کہ گیس سے بھری کان میں کام کے دوران کسی اسپارک یا کوئی شے جلانے سے دھماکہ ہو جاتا ہے جس سے کان دھنس جاتی ہے اور مزدور ہزاروں ٹن مٹی کے نیچے دب کر دم توڑ دیتے ہیں۔
انہوں نے صوبائی حکومت سے کان کنوں کی ہلاکتوں کی تحقیقات کرنے اور اس حوالے سے ایک مربوط پالیسی بنانے کا بھی مطالبہ کیا۔
بلوچستان کے آٹھ اضلاع میں واقع ہزاروں کانوں سے تقریباً ایک لاکھ مزدور روزانہ سیکڑوں ٹن کوئلہ نکالتے ہیں۔
مزدور رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بیشتر کانوں میں صاف ہوا کے اندر آنے کے مناسب انتظامات نہیں کیے جاتے اور نہ ہی حادثات کی صورت میں فوری طبی امداد کی کوئی سہولت موجود ہوتی ہے جس کی وجہ سے اکثر وبیشتر چھوٹے حادثے یا دھماکے میں بھی کئی لوگوں کی جان چلی جاتی ہے۔
رواں سال مئی میں دو کانوں میں دھماکوں میں چھ اور اس سے پہلے گزشتہ سال ستمبر میں ایک ہفتے کے دوران پیش آنے والے مختلف حادثات میں آٹھ کان کن جان کی بازی ہار گئے تھے۔