کوئٹہ —
بلوچستان کے معروف سرجن ڈاکٹر عبدالمناف کو اغواء ہوئے دو ماہ سے زائد ہو گئے ہیں اور اُن کی عدم بازیابی کے خلاف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کی صوبائی تنظیم نے اپنے احتجاج کو وسعت دیتے ہوئے تمام سرکاری اسپتالوں کے او پی ڈیز یعنی شعبہ بیرونی مریضاں میں بھی کام بند کر دیا ہے۔
پی ایم اے کے مرکزی رہنما ڈاکٹر حقداد ترین نے وائس آف امر یکہ کو بتایا کہ ڈاکٹروں کے احتجاج کا دوسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ ایک ہفتے تک او پی ڈیز بند رہیں گی اور اُن کے بقول اگر حکومت نے ڈاکٹر عبدالمناف ترین کو بازیاب نہیں کرایا تو احتجاج میں مزید شدت لائی جائےگی۔
’’مریضوں کے داخلے کا سب سے بڑا ذریعہ (او پی ڈیز) ہی سے ہوتا ہے، اس کے بعد ہم اسپتال کے اندر سرگرمیاں بند کریں گے جس کے بعد آپریشن تھیٹر میں بھی کام بند کریں دیں۔‘‘
ڈاکٹر حقداد ترین نے متنبہ کیا کہ اگر حکومت نے اُن کے مسائل پر غور کرتے ہوئے اغوا ہونے والے ڈاکٹر کو بازیاب نا کروایا اور مستقبل میں اُن کی حفاظت کے لیے مناسب انتظامات نا کیے تو پی ایم اے اپنے احتجاج کے دائرے کو مزید بڑھا دے گی۔
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں چار بڑے سرکاری اسپتال ہیں جہاں صوبے کے دور دراز علاقوں سے مر یضوں کو علاج و معالجے کے لیے لایا جاتا ہے۔
ڈاکٹروں کی ہڑتال کے باعث ان مر یضوں اور اُن کے ہمراہ اسپتالوں میں آنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
بلوچستان کے ضلع پشین سے تعلق رکھنے والے فیض اللہ کاکڑ کہتے ہیں کہ سرکاری اسپتالوں میں وہی لوگ آتے ہیں جو نجی اسپتالوں میں علاج کرانے کی استطاعت نہیں رکھتے اس لیے اُن کے بقول ڈاکٹروں کو اپنی مشکلات کے باوجود ان مریضوں کی پریشانیوں پر ہمدردانہ غور کرنا چاہیئے۔
’’ڈاکٹروں کو او پی ڈیز میں ایک دو گھنٹے تو بیٹھنا چاہیئے، کیوں کہ غریب مریضوں کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔‘‘
ڈاکٹر عبدالمناف کو 17 ستمبر کو اُس وقت نامعلوم افراد نے اغوا کیا تھا جب وہ اسپتال سے گھر جا رہے تھے۔ اس واقعہ پر پی ایم اے نے ابتدا میں روزانہ کی بنیاد پر دو گھنٹے کی علامتی ہڑتال شروع کی تھی جس کے بعد گزشتہ ہفتے کے روز سے تمام او پی ڈیز کو تالا لگا کر ہڑتال کو مزید وسعت دے دی گئی ہے ۔
ڈاکٹروں کی تنظیم کے مطابق حالیہ برسوں میں صوبے سے اب تک 26 ڈاکٹروں کو اغوا اور 18 کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا ہے جبکہ ڈاکٹروں سمیت شعبہ طب سے تعلق رکھنے والے 84 افراد صوبے میں بدامنی کے باعث صوبے سے دیگر علاقوں یا بیرون ملک منتقل ہو چکے ہیں ۔
صوبائی وزیر داخلہ سر فراز بگٹی کا کہنا ہے کہ اغوا برائے تاوان اور دیگر ایسے منظم جرائم کی روک تھام کے لیے خفیہ اداروں ، پولیس اور لیویز سمیت صوبے کے تمام بااثر قبائلی رہنماﺅں کے ساتھ مل کر ایک جامع منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
بلوچستان کے سیکرٹری داخلہ اسد عبد الرحمان کا کہنا ہے کہ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں پر قابو پانے کے لیے پولیس اور لیویز اہلکارو ں پر مشتمل جدید فورس بھی تشکیل دی گئی ہے جس نے رواں سال کے دوران اغوا ہو نے والے 25 افراد میں سے 19 کو بازیاب کرا لیا ۔
پی ایم اے کے مرکزی رہنما ڈاکٹر حقداد ترین نے وائس آف امر یکہ کو بتایا کہ ڈاکٹروں کے احتجاج کا دوسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ ایک ہفتے تک او پی ڈیز بند رہیں گی اور اُن کے بقول اگر حکومت نے ڈاکٹر عبدالمناف ترین کو بازیاب نہیں کرایا تو احتجاج میں مزید شدت لائی جائےگی۔
’’مریضوں کے داخلے کا سب سے بڑا ذریعہ (او پی ڈیز) ہی سے ہوتا ہے، اس کے بعد ہم اسپتال کے اندر سرگرمیاں بند کریں گے جس کے بعد آپریشن تھیٹر میں بھی کام بند کریں دیں۔‘‘
ڈاکٹر حقداد ترین نے متنبہ کیا کہ اگر حکومت نے اُن کے مسائل پر غور کرتے ہوئے اغوا ہونے والے ڈاکٹر کو بازیاب نا کروایا اور مستقبل میں اُن کی حفاظت کے لیے مناسب انتظامات نا کیے تو پی ایم اے اپنے احتجاج کے دائرے کو مزید بڑھا دے گی۔
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں چار بڑے سرکاری اسپتال ہیں جہاں صوبے کے دور دراز علاقوں سے مر یضوں کو علاج و معالجے کے لیے لایا جاتا ہے۔
ڈاکٹروں کی ہڑتال کے باعث ان مر یضوں اور اُن کے ہمراہ اسپتالوں میں آنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
بلوچستان کے ضلع پشین سے تعلق رکھنے والے فیض اللہ کاکڑ کہتے ہیں کہ سرکاری اسپتالوں میں وہی لوگ آتے ہیں جو نجی اسپتالوں میں علاج کرانے کی استطاعت نہیں رکھتے اس لیے اُن کے بقول ڈاکٹروں کو اپنی مشکلات کے باوجود ان مریضوں کی پریشانیوں پر ہمدردانہ غور کرنا چاہیئے۔
’’ڈاکٹروں کو او پی ڈیز میں ایک دو گھنٹے تو بیٹھنا چاہیئے، کیوں کہ غریب مریضوں کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔‘‘
ڈاکٹر عبدالمناف کو 17 ستمبر کو اُس وقت نامعلوم افراد نے اغوا کیا تھا جب وہ اسپتال سے گھر جا رہے تھے۔ اس واقعہ پر پی ایم اے نے ابتدا میں روزانہ کی بنیاد پر دو گھنٹے کی علامتی ہڑتال شروع کی تھی جس کے بعد گزشتہ ہفتے کے روز سے تمام او پی ڈیز کو تالا لگا کر ہڑتال کو مزید وسعت دے دی گئی ہے ۔
ڈاکٹروں کی تنظیم کے مطابق حالیہ برسوں میں صوبے سے اب تک 26 ڈاکٹروں کو اغوا اور 18 کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا ہے جبکہ ڈاکٹروں سمیت شعبہ طب سے تعلق رکھنے والے 84 افراد صوبے میں بدامنی کے باعث صوبے سے دیگر علاقوں یا بیرون ملک منتقل ہو چکے ہیں ۔
صوبائی وزیر داخلہ سر فراز بگٹی کا کہنا ہے کہ اغوا برائے تاوان اور دیگر ایسے منظم جرائم کی روک تھام کے لیے خفیہ اداروں ، پولیس اور لیویز سمیت صوبے کے تمام بااثر قبائلی رہنماﺅں کے ساتھ مل کر ایک جامع منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
بلوچستان کے سیکرٹری داخلہ اسد عبد الرحمان کا کہنا ہے کہ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں پر قابو پانے کے لیے پولیس اور لیویز اہلکارو ں پر مشتمل جدید فورس بھی تشکیل دی گئی ہے جس نے رواں سال کے دوران اغوا ہو نے والے 25 افراد میں سے 19 کو بازیاب کرا لیا ۔