پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کی عدالت عالیہ ’بلوچستان ہائی کورٹ‘ نے خلیجی ممالک کے شیوخ کو وزارت خارجہ کی طرف سے صوبے میں شکار گاہوں کی فراہمی یا ’الاٹمنٹ‘ کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
عدالت نے کہا کہ صوبائی حکومت شکارگاہوں کی ایسی کسی الاٹمنٹ پر عمل درآمد کی پابند نہیں۔
بلوچستان ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے صوبائی اسمبلی کے سابق اسپیکر اسلم بھوتانی اور ایک دوسرے شخص کی درخواستوں کی سماعت کے بعد جمعہ کو یہ فیصلہ سنایا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس اعجاز خان سواتی پر مشتمل دو رکنی بینچ کے سامنے درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا کہ عرب ممالک کی بااثر شخصیات یعنی ’شیوخ‘ کو ان شکارگاہوں میں نایاب پرندے ’تلور‘ کے شکار کی اجازت دی گئی ہے۔
درخواست گزاروں کا یہ موقف تھا کہ ’تلور‘ کا شمار نایاب پرندوں میں ہوتا ہے اور اُن کی نسل تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔
سردی کے موسم میں ’تلور‘ سرد علاقوں سے گرم علاقوں کا سفر کرتے ہیں۔
سردیوں کے موسم میں بلوچستان میں شکارگاہوں میں ان کا شکار کیا جاتا ہے۔
بلوچستان ہائی کورٹ نے متعلقہ صوبائی حکام کو ہدایت کی کہ وہ جنگلی حیات خاص طور پر معدوم ہونے والے جانوروں اور پرندوں کی نسلوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے قوانین پر عمل درآمد موثر بنائیں۔
اس حوالے سے حکام سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ آئندہ سماعت کے موقع پر صوبے میں جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق کیے جانے والے اقدامات سے بھی عدالت کو آگاہ کریں۔
واضح رہے کہ حال ہی میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق عرب ممالک سے آنے والے شیوخ کی طرف سے بلوچستان میں لگ بھگ 2000 نایاب پرندوں کا شکار کیا گیا۔