بلوچستان کے صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے ناراض قوم پرست بلوچ رہنما براہمداغ بگٹی کی طرف سے بات چیت پر رضامندی کا خیر مقدم کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں سرفراز بگٹی نے کہا کہ حکومت اور ریاست پاکستان نے کبھی بات چیت سے انکار نہیں کیا۔
منگل کو برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں براہمداغ بگٹی نے کہا تھا کہ بلوچستان میں امن کے لیے مذاکرات پر اُن کی رائے جاننے کے لیے بلوچستان کے وزیراعلیٰ عبد المالک بلوچ اور وفاقی وزیر برائے سرحدی امور عبدالقادر بلوچ نے جنیوا میں اُن سے ملاقات کی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ بلوچستان کے مسئلے پر وہ بات کرنے کو تیار ہیں لیکن براہمداغ بگٹی کے بقول بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کے لیے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔
سرفراز بگٹی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وزیراعظم پاکستان نے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو بلوچستان میں امن کے لیے مذاکرات شروع کرنے کا کام سونپا ہے اور انہیں مذاکرات کا پورا اختیار حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں سمیت کوئی بھی مذاکرات کا حصہ ہو سکتا ہے۔
’’ان (براہمداغ) کا آج نقطہ نظر تبدیل ہوا ہے اور یہ بہت مثبت بات ہے کہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ اب بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالنا ہے۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے۔‘‘
اس سے قبل شدت پسند بلوچ رہنماؤں نے بلوچستان سے فوجی آپریشن ختم ہونے تک مذاکرات سے انکار کیا تھا۔
براہمداغ بگٹی نواب اکبر خان بگٹی کے پوتے ہیں جو 2006ء میں ایک فوجی آپریشن کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔
نواب اکبر بگٹی کی موت کے بعد براہمداغ بگٹی اور بعض دیگر بلوچ رہنماؤں نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی تھی اور بلوچستان میں بڑے پیمانے پر شدت پسندانہ کارروائی شروع کی گئیں تھیں جن میں سرکاری تنصیبات اور صوبے کے غیر بلوچ رہائشیوں کو نشانہ بنایا گیا۔
بلوچ شدت پسندوں کا مؤقف ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے ریاست سے برسرپیکار ہیں۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ مذاکرات کے لیے باہمی اعتماد سازی کے کئی اقدامات کیے گئے ہیں اور آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے ہی بات چیت ہو گی۔