پاکستان کے صوبے بلوچستان کے وزیرِاعلیٰ نے بارکھان کے قریب کنویں سے تین لاش ملنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کی ہدایت کردی ہے۔
دوسری جانب صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات پر کہا ہے کہ میری کوئی نجی جیل نہیں ہے۔ حکومت اور تمام ادارے میرے گاؤں اور گھروں کی تلاشی لے سکتے ہیں۔
بارکھان سے لاشوں کی برآمدگی پر بلوچستان کے علاقے کوہلو میں مری قبائل کے افراد کی جانب سے ان لاشوں کے ہمراہ احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ۔
احتجاج میں شریک مری قبائل کے عمائدین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ خاتون اور ان کے بیٹوں کے مبینہ قتل میں ملوث صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
مظاہرین نے الزام لگایا ہے کہ پولیس واقعے کی ایف آئی آر سردار عبدالرحمان کھیتران کے خلاف درج کرنے کے بجائے نامعلوم افراد کے خلاف درج کرانے پر زور دے رہی ہے۔
دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ کنویں سے ملنے والے تینوں افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا ہے اور ان کی شناخت کا عمل جاری ہے۔
ہلاک ہونے والے ان تمام افراد کی نمازِ جنازہ کوہلو میں ادا کردی گئی۔مری قبیلے کے ایک سماجی کارکن عبدالنبی مری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لاشوں کو کوہلو سے کوئٹہ منتقل کیا جا رہا ہے جہاں مری قبائل کے افراد وزیرِاعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیں گے۔
ادھر خان محمد عرف اسماعیل مری نامی ایک شخص کا کہنا ہے کہ ان تینوں لاشوں میں سے ایک ان کی اہلیہ بی بی گراناز، جب کے دو ان کے بیٹوں نواز اور عبدالقادر کی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران نے ان کے خاندان کے افراد کو اغواکرایا تھا۔چند روز قبل اس سلسلے میں کوئٹہ میں احتجاج بھی کیا گیا تھا اور اعلیٰ حکام سے رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد خان نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ان کا خون ان سب کے ذمہ ہے جو انہیں ایک نجی جیل سے رہائی دلانے میں ناکام رہے۔
وزیرِاعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے بارکھان واقعے کا نوٹس لیا ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ متاثرہ خاندان کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دیں گے۔
پولیس کیا کہتی ہے؟
بلوچستان پولیس کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ آئی جی پولیس بلوچستان نے بارکھان واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ واقعے میں ملوث افراد سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ شہری کسی افواہ پر کان نہ دھریں اور رپورٹ کا انتظار کریں تاکہ ملوث ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ بارکھان سے لاشوں کی برآمدگی کے معاملے پر اہل خانہ کی مشاورت سے اعلیٰ سطح غیرجانب دار تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔
انسانی حقوق کمیشن کا تشویش کا اظہار
انسانی حقوق کمیشن بلوچستان چیپٹر کے چیئرمین حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میںبارکھان میں کنویں سے لاشوں کی برآمدگی کے واقعے کو انسانیت سوز قرار دیا ۔
انہوں نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں سرداری نظام ایک قانون کے تحت ختم ہوگیا تھا مگر اس کے باوجود آج بھی نواب، سردار اور میر اپنے نام کے ساتھ یہ ٹائٹل لگاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ ہم آج بھی ایک قبائلی نظام میں رہتے ہیں مگر قانونی طور پر اس نظام کا کوئی وجود نہیں ہے۔ قبائلی سردار آج بھی بہت طاقت ور ہیں اور یہ نہ صرف اپنی قوم میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں بلکہ سیاست میں بھی سرگرم ہیں۔
ان کے بقول ''قانونی طور پر یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کوتحفظ فراہم کرے مگر اس واقعے میں ریاست مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔''
انہوں نے کہا کہ ایک خاتون کی سوشل میڈیا پر پہلے ویڈیو وائرل ہوئی جس میں حکومت سے مدد کی اپیل کی گئی مگر ریاست نے کوئی اقدام نہیں اٹھایا اور اب یہ واقعہ پیش آگیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں ماضی میں بھی اس طرح کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اس طرح کی نجی جیلیں موجود ہیں جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔''
انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے بعد بھی ریاست خاموش ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک آزادانہ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے۔
سردار عبدالرحمان کھیتران کا کیا مؤقف ہے؟
بلوچستان کے صوبائی وزیر اور کھیتران قبیلے کے سربراہ سردار عبدالرحمان کھیتران نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''میں اس وقت کوئٹہ میں ہوں اور میرے آبائی گھر سے تقریباًدو کلومیٹر دور ایک کنویں سے یہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم یہ لوگ کون ہیں۔''
ان کا کہنا تھا کہ سال 2013 سے یہ کہانی چل رہی ہے۔ خان محمد نامی ایک شخص ہے جو رکنی کے علاقے میں ایک قتل کے الزام میں جیل میں بھی قید رہا ہے۔
سردار عبدالرحمان کھیتران کے بقول ''خان محمد مری نامی شخص 2012 میں میرے ساتھ کچھ عرصے کے لیے گارڈ رہا تھا مگر یہ شخص جعل سازی میں ملوث تھا اس لیے اسے نوکری سے فارغ کردیا تھا۔'' اس کے بعد سے جب بھی الیکشن قریب ہوتے ہیں ہیں یہ شخص میرے خلاف اس طرح کے ڈرامے بازی کرتا رہتا ہے۔ سال 2013 اور 2018 میں بھی میرے خلاف سازشیں کی گئیں۔''
انہوں نے بتایا کہ ''اس شخص کو میرے سیاسی مخالفین میری سیاسی اور قبائلی ساکھ کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ میرے خلاف ایک سازش ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں سرخروں ہوں گا۔''
ان کا کہنا تھا کہ ''میرا کسی قسم کا کوئی نجی جیل نہیں ہے۔ میں حکومت اور تمام اداروں کو پیش کش کرتا ہوں کہ میرے گاؤں، کوئٹہ یا لاہور کے گھر کی تلاشی لیں۔ اگر آپ کو کوئی نجی جیل ملے تو مجھے ملامت کریں۔'' ان کے بقول یہ لوگ ہمارے قبیلے کو مری قبائل کے ساتھ دست و گریباں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ ہم دونوں دو برادر اقوام ہیں اور ایک دوسرے کے اچھے ہمسایہ ہیں۔
عبدالرحمان کھیتران کے مطابق'' جب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیر اعلیٰ بلوچستان تھے تو اس دوران 2014 سے 2018 تک میں مختلف الزامات میں قید برداشت کرر رہا تھا۔ مگر بعد میں مجھے عدالتوں سے انصاف ملا اور میں بری ہوگیا۔''
انہوں نے کہا کہ ان دنوں میں بھی میرے گھر اور مہمان خانے کی تلاشی لی گئی تو اگر یہ عورت اور اس کے بچے میرے وہاں موجود ہوتے تو وہ ضرور برآمد ہوتے۔
سردار عبدالرحمان کھیتران کون ہیں؟
سردار عبدالرحمان کھیتران بلوچستان کے کھیتران قبیلے کے سربراہ اور معروف سیاست دان ہیں۔ وہ بلوچستان کے موجودہ وزیر مواصلات اور رکن بلوچستان اسمبلی ہیں۔
عبدالرحمان کھیتران 1997 میں پہلی مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر تعلیم بنے۔ وہ پہلے پاکستان مسلم لیگ (ق) میں رہے اس کےبعد جمعیت علماء اسلام کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا۔ اس وقت وہ بلوچستان عوامی پارٹی سے منسلک ہیں۔
یاد رہے کہ سردار عبدالرحمان کھیتران پر سال 2014 میں بھی اسی طرح کا الزام لگا تھا جب پولیس نے ان کی بارکھان میں رہائش گاہ میں قائم ایک نجی جیل سے خواتین اور بچوں کو بازیاب کرانے کا دعویٰ کیا تھا۔