رسائی کے لنکس

چیئرمین نیب آفتاب سلطان کا استعفیٰ؛ 'کسی پر جھوٹا کیس نہیں ڈال سکتا'


قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین آفتاب سلطان نے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔

آفتاب سلطان کو گزشتہ برس دو جون کو سابق چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی مدتِ ملازمت مکمل ہونےکے بعد اس عہدے پر مقرر کیا گیا تھا۔

وزیرِ اعظم آفس کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق چیئرمین نیب نے منگل کو اپنا استعفیٰ وزیرِ اعظم کو پیش کیا۔

اعلامیے کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف نے چیئرمین نیب کی ادارے کے لیے خدمات کو سراہا اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

نیب افسران سے الوداعی خطاب

آفتاب سلطان کے استعفے کے بعد ترجمان نیب کی جانب سے ایک بیان میڈیا کو جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ سابق چیئرمین نیب نے نیب افسران سے الوداعی خطاب کیا۔

الوداعی خطاب میں آفتاب سلطان نے کہا کہ وہ بہت خوش اور مطمئن ہیں کہ وہ اپنے اصولوں کو برقرار رکھنے کے قابل ہیں اور کسی دباؤ کے سامنے نہیں جھکے۔اپنی زندگی اور پیشہ ورانہ کریئر میں انہوں نے قانون کے مطابق کام کرنے کی کوشش کی اور اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔

آفتاب سلطان کا کہنا تھا کہ ہمارا آئین ہمارے تمام مسائل کا حل فراہم کرتا ہے۔ آئین پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آج سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہر سیاسی حکومت کو عوام کا مینڈیٹ ہوتا ہے کہ وہ اپنی 5 سالہ مدت پوری کرے اور کوئی فرد یا گروہ قومی مفاد کے نام پر حکومت کو ہٹانے کا مجاز نہیں ہے۔سیاسی عمل اور انتخابات کا تسلسل ضروری ہے۔

چئیرمین نیب کے بقول " میں کسی کے خلاف جھوٹا مقدمہ نہیں چلا سکتا اور نہ ہی کسی کے خلاف ریفرنس محض اس بنیاد پر ڈال سکتا ہوں کہ وہ کسی بڑی شخصیت کا رشتہ دار ہے۔ مجھے اعلیٰ اخلاقی اقدار اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے نیب کے نوجوان افسران پر مکمل اعتماد ہے۔ "

تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان، آفتاب سلطان کو شریف خاندان کا وفادار قرار دیتے رہے ہیں تاہم وہ ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

نشریاتی ادارے ’ہم نیوز‘ کے مطابق آفتاب سلطان کے مستعفی ہونے کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب نے استعفی دے دیا ہے البتہ یہ وہ خود بتا سکتے ہیں کہ ان پر کس کا دباؤ تھا؟

شاہد خاقان عباسی کا مزید کہنا تھا کہ نیب کیسز تو اب بھی چل رہے ہیں۔ نیب کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک کے مسائل کا حل مل کر بیٹھنے میں ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سابق وفاقی وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کا استعفی اس نظام کے خاتمے کی جانب بڑا قدم ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ آفتاب سلطان نے کام میں مداخلت پر استعفیٰ دیا ہے۔

آفتاب سلطان پاکستان کے سول خفیہ ادارے انٹیلی بیورو (آئی بی) کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے علاقے فیصل آباد سے ہے۔انہوں نے 1977 میں پولیس سروس میں بطور اے ایس پی کام شروع کیا اور 2000 میں انہیں ڈی آئی جی کے عہدے پر ترقی دی گئی۔

سال 2007 میں ایڈیشنل آئی جی اور گریڈ 22 میں ترقی کے بعد انہیں ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)بنایا گیا۔ آفتاب سلطان آئی جی پنجاب اور نیشنل پولیس اکیڈمی کے کمانڈنٹ بھی رہ چکے ہیں۔

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے حارث اسٹیل ملز سمیت کئی ہائی پروفائل کیسز کی تحقیقات آفتاب سلطان سے کروائی تھیں۔

آفتاب سلطان 2013 میں مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں آئی بی کے ڈائریکٹر بنے اور تین سالہ مدت پوری ہونے کے بعد انہیں دو مرتبہ توسیع ملی۔

'راجا ریاض کی مشاورت سے نیا چیئرمین نیب قابلِ قبول نہیں ہو گا'

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ چیئرمین نیب کا استعفیٰ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مترادف ہے۔

لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ راجا ریاض کی مشاورت سےنئے چیئرمین نیب کا تقرر ناقابل قبول ہوگا۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر پی ٹی آئی کا ہونا چاہیے، نیا چیئرمین نیب راجا ریاض کے مشورے سے نہ لگایا جائے۔

خیال رہے کہ آئین کے تحت چیئرمین نیب کی تقرری قومی اسمبلی میں قائدِ ایوان یعنی وزیرِ اعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کی مشاورت سے ہوتی ہے۔ راجا ریاص اس وقت قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف ہیں۔

'نیب بنا ہی 'سیاسی انجینئرنگ' کے لیے تھا'

تجزیہ کار اور سابق پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق کہتے ہیں کہ نیب کا آغاز ہی سیاسی انجینئرنگ اور مخالفین کی وفاداریاں تبدیل کرانے کے لیے کیا گیا تھا۔ لہذٰا نیب اپنی تاریخ میں کبھی بھی آزاد نہیں رہا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں نے نیب کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں نے نیب کو اپنے خلاف کیسز ختم کرانے کے لیے استعمال کیا۔

عمران شفیق کا کہنا تھا کہ نیب کا ادارہ چیئرمین نیب کےگرد ہی گھومتا ہے۔ چیئرمین نیب اگر اپنی مرضی کا ہو اور حکومت کی مرضی کے مطابق کام کررہا ہو تو حکومتوں کا پسندیدہ ہوتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ آفتاب سلطان کا کریئر بے داغ تھا اور وہ ایک ایمان دار افسر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ایسے افسر کو اگر چیئرمین نیب لگایا جائے گا تو انہیں آزادی بھی دینا پڑتی ہے اور شاید انہوں نے حکومتی دباؤ کو قبول نہیں کیا۔

تبدیل شدہ نیب قوانین

گزشتہ برس اکتوبر میں پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے نیب ترمیمی بل 2022 کے بعد اب احتساب عدالت کے ججوں کی تقرری کا اختیار صدر کے بجائے وفاقی حکومت کے پاس چلا گیا ہے۔ اسی طرح پراسیکیوٹر جنرل نیب کی مدتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع کی جا سکے گی۔

نیب قوانین میں ترامیم کے بعد نیب 50 کروڑ روپے سے کم خردبرد کے کیسوں کی تحقیقات نہیں کرے گا اور چیئرمین نیب فردِ جرم عائد ہونے سے قبل ریفرنس ختم کرنے کی تجویز کر سکیں گے۔

ملزمان کے خلاف تحقیقات کے لیے کسی سرکاری ایجنسی سے مدد نہیں لی جائے گی جب کہ ملزم کو اس کے خلاف الزامات سے آگاہ کیا جائے گا تاکہ وہ عدالت سے رجوع کر سکے۔

اِسی طرح نیب قانون کے سیکشن 16 کے تحت جہاں جرم ہو گا اسی علاقے کی احتساب عدالت میں مقدمہ چلے گا۔ ترامیم کے تحت نیب کو عدالتِ عالیہ کی مدد سے نگرانی کی اجازت دینے کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG