سینیٹ کے انتخابات میں چھ آزاد سینیٹروں کے انتخاب کے بعد پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں صوبہ بلوچستان کی اہمیت ایک بار پھر بڑھ گئی ہے اور اتوار کو ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتو ں کے رہنماﺅں نے نو منتخب سینیٹروں سے ملاقات اور ٹیلیفونک رابطے کیے۔
دوسری طرف نو منتخب سینیٹروں کی طرف سے سینٹ کے چئیر مین کا عہدہ بلوچستان کو دینے کا بھی مطالبہ سامنے آیا ہے۔
اتوار کو نو منتخب سینیٹروں کے ہمراہ پر یس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت میں شامل جماعتوں نے متحد ہوکر ایک دوسرے کی مدد کی جس کی بدولت مخلوط پارلیمانی گروپ نے 6 سینیٹر منتخب کروائے ہیں جس کے بعد ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں نے اُن سے اور دیگر سینیٹروں سے رابطے کئے ہیں لیکن ہم اپنے صوبے کے مفاد کو مدنظر رکھ کر آگے بڑھیں گے۔
"ہمار ے دروازے تمام سیاسی جماعتوں کےلئے کھلے ہیں ہم جمہوری لوگ ہیں اور انہوں نے اس اُمید کے ساتھ مبارکباد دی ہے کہ باہم مل کر ہم آگے بڑھنے کی کو شش کریں گے ہمارے دروازے کسی پارٹی کےلئے بند نہیں ہیں، بلوچستان کے بہتر مفاد میں نون لیگ سمیت ہم تمام جماعتوں سے بات کرنے کو تیار ہیں۔"
اتوار کو ہی پاکستان پیپلزپارٹی کے د و اہم رہنماﺅں سینیٹر عبدالقیوم سومرو اور فضل کریم کُنڈی نے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی اور سابق صدر آصف علی زرداری کا پیغام اُن کو پہنچایا جب کہ پاکستان تحر یک انصاف کے جہانگیر ترین نے بھی نو منتخب سینیٹر انوارالحق سے ٹیلفون پر رابطہ کیا۔
وزیر ا علیٰ کی پر یس کانفرنس کے دوران نو منتخب چھ سینیٹروں نے سینٹ کے نئے چئیر مین کا عہدہ بلوچستان کو دینے کا مطالبہ بھی کیا۔
یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک کی بڑی دو بڑ ی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو شش کر رہی ہیں کہ سینیٹ کے نئے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں پر اتفاق رائے پید ا ہوسکے اور سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ روایات کے مطابق بلوچستان کو دے کر بلوچستان کو وفاقی سطح پر نمائندگی دی جائے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ سینیٹ کے موجودہ ڈپٹی چئیر مین مولانا عبدالغفور حید ری کا تعلق بلوچستان سے ہے اور اس سے پہلے جان محمد جمالی بھی اسی عہدے پر فائز رہ چکے ہیں ۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سینیٹ انتخابات کے بعد بلوچستان میں جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے تاہم اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔