کو ئٹہ الیکٹر ک سپلائی کارپوریشن کے حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ رات ضلع بولان کے علاقے مچھ میں کوئٹہ اور صوبے کے دیگر 24 اضلاع کو قومی گرڈ سے بجلی کی فراہمی کی دو مرکزی لائنوں کے کھمبوں کونامعلوم افراد کی طرف سے دھماکہ خیز مواد سے اُڑایا گیا جس کے بعد کوئٹہ اور دیگر اضلاع میں بجلی مکمل طور پر بند ہو گئی تاہم صوبائی دارلحکومت کو بجلی شہر کے اندر قائم ایک نجی ادارے کے بجلی گھر اور ہرنائی کے متبادل لائن سے بجلی ملنے کے بعد بحال کردی گئی۔
کوئٹہ الیکڑک سپلائی کارپوریشن کے سر براہ شفیق احمد خان نے وائس آف امر یکہ کو بتایا کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کو ہفتے کے روز سے بجلی کی جزوی بحالی شروع کر دی گئی ہے۔
شفیق احمد خان نے بتایا کہ کو ئٹہ اور دیگر اضلاع کوبجلی کی فراہمی کے لیے گدو اور اوچ پارو اسٹیشن سے لائے جانے والے بجلی کی لائنوں کے دو کھمبوں کو گذشتہ ہفتے جعفرآباد میں اوچ پاور اسٹیشن کے قر یب بھی تباہ کردیاگیاتھا، لیکن سکیورٹی کلئیر نس نہ ہونے کی وجہ سے ان کھمبوں کی مر مت کا کام تاحال شر وع نہیں کیا جاسکا ہے ۔ اُنھوں نے بتایا کہ بلوچستان حکومت سے رابطہ کیا گیا ہے اور حکومت کی طر ف سے سکیورٹی کلئیر نس کے بعد ان کھمبوں کی مر مت کا کام شر وع کر دیا جائے گا۔
بلوچستان میں رواں سال کے آغاز سے ہی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے صرف رواں ہفتے کے دوران تشدد کے مختلف واقعات میں سات سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں سمیت کم سے کم بارہ افراد ہلاک اور اٹھارہ سے زائد زخمی ہوئے ۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ بلوچستان میں امن وامان کی خراب صورت کے حوالے سے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا تھا کہ صوبائی حکومت دیگر اداروں کے ساتھ مل کر عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرے۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے حالیہ دنوں میں قومی اسمبلی سے خطاب کے دوران بلوچستان کی صورتحال پراپنے ایک بیان میں کہا کہ صوبے کے عوام کے احساس محرومی کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو ششیں کر رہی ہے اوربلوچستان کے چھ ہزار جوانو ں کو پولیس میں بھرتی کیا گیاہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ دس سے پندرہ ہزار جوانوں کو تعلیم اور عمر میں رعایت دیتے ہوئے قومی پروگرام کے تحت فنی تر بیت بھی فراہم کی جائے گی۔
بلوچستان کے سابق گورنر اور حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں تشدد کے خاتمے کا سیاسی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ تشدد کے واقعات اور خاص طور پر بجلی کی مرکزی لائنوں اور کھمبوں کو تباہ کرنے سے صوبے میں زراعت اور صنعت کا شعبہ بری طرح متاثرہورہا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ حکومت کو صوبے میں قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔
حکمران جماعت پیپلزپارٹی کے بلوچستان سے رکن قومی اسمبلی آیت اللہ درانی نے کا کہنا ہے حکومت صوبے کے حالات سے پوری طرح باخبر ہے اور امن وامان کی بحالی کے علاوہ بلوچ عوام کے احساس محرومی کو دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اب منتخب حکومت کے علاوہ فوج بھی بلوچستان میں تعلیم کے فروغ کے علاوہ ملازمتوں کی فراہمی کے لیے کام کر رہی ہے۔