جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے مضافاتی علاقے میں ہفتہ کی صبح نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے سات افراد ہلاک ہو گئے۔
پولیس حکام کے مطابق شیعہ ہزارہ برادری کے لوگ کو ئٹہ کے نواحی علاقے ہزار گنجی میں واقعہ سبزی منڈ ی سے سبزی خر ید کر واپس جا رہے تھے کہ ا ن کی گاڑی کو مغر بی بائی پاس پر دو مو ٹر سائیکلوں پر سوار چا ر مسلح افراد نے روک کر سات افراد کو بس سے اُتار لیا۔
مسلح افراد نے گولیاں مار کے پانچ افراد کو موقع پر یی ہلاک کر دیا جب کہ دو افراد اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے بھاگ نکلے لیکن حملہ آوروں نے ان کا پیچھا کر کے انھیں بھی مار ڈالا۔
تمام افراد کی لاشوں کو بو لان میڈیکل کالج کمپلیکس منتقل کیا گیا جہاں ہزارہ برادری کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہو گئی اور انھوں نے واقعہ کے خلاف بھرپور احتجاج کر تے ہوئے سڑکوں پر ٹائر جلائے جس سے بروری روڈ اور مغر بی بائی پاس کی اہم شاہراہوں پر ٹریفک کا سلسلہ چند گھنٹوں کے لیے معطل ہو گیا۔
پولیس اورفرنٹیئر کور کے اہلکاروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی اور مداخلت کر کے ٹریفک کو دوبارہ بحال کردیا۔
تشدد کے اس واقعہ کے خلاف احتجاج کے باعث کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاؤن میں تمام تعلیمی ادارے بھی بند کر دیئے گئے اور شیعہ کونسل کی طر ف سے سات روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
پولیس حکام اس واقعہ کو فرقہ وارانہ دہشت گردی قرار دے رہے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ مختلف علاقوں کی ناکہ بندی کر کے حملہ آوروں کی تلاش کی جا رہی ہے۔
وزیر اعلیٰ بلو چستان نے تشدد کے اس واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کر تے ہو ئے صوبائی دارالحکومت کے نواحی علاقے میں سیکورٹی کے ناقص انتظامات پر بر ہمی کا اظہار کیا اور متعلقہ علاقے کے پولیس افسران کے خلاف تادیبی کاروائی کی بھی ہدایت کی ہے۔
ہزارہ برادری کے لوگوں کے خلاف مہلک حملوں کا سلسلہ گزشتہ دو سال سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ رواں سال کے دوران جون میں ایک بس پر حملہ کرکے پندرہ افراد کو ہلاک کیا گیا تھا ۔
بلوچستان کی صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ شیعہ ہزار ہ برادری کے لوگوں کے تحفظ کے لیے شہر میں سیکورٹی کے انتظامات سخت تر ین کر دیے گئے ہیں اور شیعہ برادری کی آبادی کی طر ف جانے والی تمام سڑکوں پر پولیس اور ایف سی کی نفری کو تعینات کرکے مشتبہ لوگوں اور گاڑیوں کی تلاشی بھی لی جارہی ہے ۔
رواں ہفتے بلوچستا ن کے بارے میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی صف اول کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ’ایچ آر سی پی‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں بھی صوبے میں آباد شیعہ ہزارہ برادری پر حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی حکومت سے اس مسئلے پر ہمدردانہ غور کا مطالبہ کیا تھا۔
اُدھر بلوچستان کے چیف سیکرٹری بابر یعقوب فتح محمد نے ہفتہ کو وزیراعظم راجہ پرویز مشرف سے ملاقات میں ان کو صوبے کے حالات کے بارے میں بریفنگ دی۔ سرکاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔
پولیس حکام کے مطابق شیعہ ہزارہ برادری کے لوگ کو ئٹہ کے نواحی علاقے ہزار گنجی میں واقعہ سبزی منڈ ی سے سبزی خر ید کر واپس جا رہے تھے کہ ا ن کی گاڑی کو مغر بی بائی پاس پر دو مو ٹر سائیکلوں پر سوار چا ر مسلح افراد نے روک کر سات افراد کو بس سے اُتار لیا۔
مسلح افراد نے گولیاں مار کے پانچ افراد کو موقع پر یی ہلاک کر دیا جب کہ دو افراد اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے بھاگ نکلے لیکن حملہ آوروں نے ان کا پیچھا کر کے انھیں بھی مار ڈالا۔
تمام افراد کی لاشوں کو بو لان میڈیکل کالج کمپلیکس منتقل کیا گیا جہاں ہزارہ برادری کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہو گئی اور انھوں نے واقعہ کے خلاف بھرپور احتجاج کر تے ہوئے سڑکوں پر ٹائر جلائے جس سے بروری روڈ اور مغر بی بائی پاس کی اہم شاہراہوں پر ٹریفک کا سلسلہ چند گھنٹوں کے لیے معطل ہو گیا۔
پولیس اورفرنٹیئر کور کے اہلکاروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی اور مداخلت کر کے ٹریفک کو دوبارہ بحال کردیا۔
تشدد کے اس واقعہ کے خلاف احتجاج کے باعث کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاؤن میں تمام تعلیمی ادارے بھی بند کر دیئے گئے اور شیعہ کونسل کی طر ف سے سات روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
پولیس حکام اس واقعہ کو فرقہ وارانہ دہشت گردی قرار دے رہے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ مختلف علاقوں کی ناکہ بندی کر کے حملہ آوروں کی تلاش کی جا رہی ہے۔
وزیر اعلیٰ بلو چستان نے تشدد کے اس واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کر تے ہو ئے صوبائی دارالحکومت کے نواحی علاقے میں سیکورٹی کے ناقص انتظامات پر بر ہمی کا اظہار کیا اور متعلقہ علاقے کے پولیس افسران کے خلاف تادیبی کاروائی کی بھی ہدایت کی ہے۔
ہزارہ برادری کے لوگوں کے خلاف مہلک حملوں کا سلسلہ گزشتہ دو سال سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ رواں سال کے دوران جون میں ایک بس پر حملہ کرکے پندرہ افراد کو ہلاک کیا گیا تھا ۔
بلوچستان کی صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ شیعہ ہزار ہ برادری کے لوگوں کے تحفظ کے لیے شہر میں سیکورٹی کے انتظامات سخت تر ین کر دیے گئے ہیں اور شیعہ برادری کی آبادی کی طر ف جانے والی تمام سڑکوں پر پولیس اور ایف سی کی نفری کو تعینات کرکے مشتبہ لوگوں اور گاڑیوں کی تلاشی بھی لی جارہی ہے ۔
رواں ہفتے بلوچستا ن کے بارے میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی صف اول کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ’ایچ آر سی پی‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں بھی صوبے میں آباد شیعہ ہزارہ برادری پر حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی حکومت سے اس مسئلے پر ہمدردانہ غور کا مطالبہ کیا تھا۔
اُدھر بلوچستان کے چیف سیکرٹری بابر یعقوب فتح محمد نے ہفتہ کو وزیراعظم راجہ پرویز مشرف سے ملاقات میں ان کو صوبے کے حالات کے بارے میں بریفنگ دی۔ سرکاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔