اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے دنیا کے امیر ترین ممالک سے کہا ہے کہ وہ موسمیاتی تغیر سے نمٹنے کے اقدامات میں دنیا کی قیادت کریں جب کہ غریب ممالک بھی ان کوششوں میں اپنے کردار کا دائرہ بڑھائیں۔
بان کی مون نے یہ بات پیرس میں موسمیاتی تغیر پر کانفرنس میں دنیا بھر سے آنے والے وزراء سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ پیر کو کانفرنس کے دوسرے ہفتے کا آغاز ہوا جس میں عالمی حدت سے نمٹنے کے لیے ایک اہم معاہدہ متوقع ہے۔
بان کی مون نے کہا کہ ’’ترقی یافتہ ممالک کو قیادت پر آمادہ ہونے کی ضرورت ہے اور ترقی پذیر ممالک کو اپنی استعداد کے مطابق مزید ذمہ داریاں اٹھانے کی ضرورت ہے۔‘‘
انہوں نے ایک ایسے معاہدے کی حمایت کی جس میں حکومتوں کی طرف سے کیے گئے وعدوں کی سخت نگرانی کا طریقہ کار اور موسمیاتی تغیر سے پیدا ہونے والے مسائل سے دوچار ممالک کے لیے اعانت شامل ہو۔
مذاکرات کاروں نے ہفتے کو 48 صفحات پر مشتمل معاہدے کا مسودہ پیش کیا تھا جس میں کئی تجاویز شامل ہیں۔ کانفرنس میں شریک وزرا ان تجاویز پر مذاکرات کریں گے کہ کون سے ملک کیا ذمہ داری لیں گے اور ان پر کتنا خرچ آئے گا۔
اب تک ہونے والے مذاکرات میں واضح ہے کہ اگر موسمیاتی تغیر پر عالمی معاہدہ قانونی طور پر پابند کرنے والا ہوا تو بھی اپنے وعدے پورے نہ کرنے والے ممالک کے خلاف تجارتی اور دیگر پابندیاں عائد نہیں کی جائیں گی۔
’’عالمی حدت پر قابو پانے کی کوششیں نا کرنے کی واحد سزا یہ ہو گی کہ پوری دنیا کے سامنے اپنا عہد پورا کرنے میں ناکامی پر شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔‘‘
مبصرین کے مطابق عالمی سفارتکاری میں دیگر ممالک کا دباؤ اور بدنامی کا ڈر کسی ملک کے لیے اپنے وعدے پورے کرنے میں اہم محرک ہو سکتا ہے، خصوصاً موسمیاتی تغیر جیسے اہم مسئلے پر۔